آیت 6
 

وَ انۡطَلَقَ الۡمَلَاُ مِنۡہُمۡ اَنِ امۡشُوۡا وَ اصۡبِرُوۡا عَلٰۤی اٰلِہَتِکُمۡ ۚۖ اِنَّ ہٰذَا لَشَیۡءٌ یُّرَادُ ۖ﴿ۚ۶﴾

۶۔ اور ان میں سے قوم کے سرکردہ لوگ یہ کہتے ہوئے چل پڑے: چلتے رہو اور اپنے معبودوں پر قائم رہو، اس چیز میں یقینا کوئی غرض ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کلمۂ توحید کی پیش کش سن کر سرداران قریش یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے:

۲۔ وَ اصۡبِرُوۡا عَلٰۤی اٰلِہَتِکُمۡ: اپنے معبودوں پر ڈٹے رہو۔ اس شخص کی باتوں میں نہیں آنا چاہیے۔ وَ اصۡبِرُوۡا صبر و استقامت دکھانے کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت میں اس قدر وزن تھا کہ تمام سرداران قریش دباؤ میں تھے۔

۳۔ اِنَّ ہٰذَا لَشَیۡءٌ یُّرَادُ: یہ تو کچھ عزائم رکھتا ہے۔ یہ ہم پر حکمرانی کرنا چاہتا ہے۔ اس دعوت کی غرض و غایت اپنی بالا دستی قائم کرنا ہے۔۔


آیت 6