جُنۡدٌ مَّا ہُنَالِکَ مَہۡزُوۡمٌ مِّنَ الۡاَحۡزَابِ﴿۱۱﴾

۱۱۔ یہ لشکروں میں سے ایک چھوٹا لشکر ہے جو اسی جگہ شکست کھانے والا ہے۔

11۔ آسمانی راستوں پر اس وقت یہ کیا چڑھیں گے ؟ یہ لوگ تو ایک دن اسی جگہ یعنی مکے میں شکست کھانے والا چھوٹا سا لشکر ثابت ہوں گے۔ واضح رہے کہ قرآن اس وقت مشرکین مکہ کو جند مھزوم شکست خوردہ لشکر کہ رہا ہے، جبکہ مسلمان نہایت اقلیت میں تھے اور دشمن اکثریت میں اور طاقتور تھا۔

کَذَّبَتۡ قَبۡلَہُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ وَّ عَادٌ وَّ فِرۡعَوۡنُ ذُو الۡاَوۡتَادِ ﴿ۙ۱۲﴾

۱۲۔ ان سے پہلے نوح اور عاد کی قوم اور میخوں والے فرعون نے تکذیب کی تھی۔

12۔ یعنی نہایت طاقتور یا میخوں کے ذریعے عذاب دینے والا۔

وَ ثَمُوۡدُ وَ قَوۡمُ لُوۡطٍ وَّ اَصۡحٰبُ لۡـَٔیۡکَۃِ ؕ اُولٰٓئِکَ الۡاَحۡزَابُ﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور ثمود اور لوط کی قوم اور ایکہ والوں نے بھی اور یہ ہیں وہ بڑا لشکر۔

اِنۡ کُلٌّ اِلَّا کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ﴿٪۱۴﴾

۱۴۔ ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا تو میرا عذاب لازم ہو گیا۔

وَ مَا یَنۡظُرُ ہٰۤؤُلَآءِ اِلَّا صَیۡحَۃً وَّاحِدَۃً مَّا لَہَا مِنۡ فَوَاقٍ﴿۱۵﴾

۱۵۔ اور یہ لوگ صرف ایک چیخ کے منتظر ہیں جس کے ساتھ کوئی مہلت نہیں ہو گی۔

15۔ فَوَاقٍ : رجوع اور تھوڑی سی مہلت کو کہتے ہیں۔ یعنی ان مشرکین کے خاتمہ کے لیے ایک ہی صیحہ یعنی کڑکا کافی ہے۔ پھر انہیں مہلت نہیں ملے گی۔

وَ قَالُوۡا رَبَّنَا عَجِّلۡ لَّنَا قِطَّنَا قَبۡلَ یَوۡمِ الۡحِسَابِ﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور وہ (از روئے تمسخر) کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمارا (عذاب کا) حصہ ہمیں حساب کے دن سے پہلے دے دے۔

16۔ وہ نبی سے از راہ تمسخر کہتے ہیں: یوم الحساب کے عذاب سے ہمیں کیا ڈراتے ہو، جو معلوم نہیں کب آنے والا ہے۔ تو اگر سچا ہے تو یوم الحساب والا عذاب، جو ہم پر آنے والا ہے، وہ فوری آ جائے۔

اِصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ اذۡکُرۡ عَبۡدَنَا دَاوٗدَ ذَا الۡاَیۡدِ ۚ اِنَّہٗۤ اَوَّابٌ﴿۱۷﴾

۱۷۔ (اے رسول) جو یہ کہتے ہیں اس پر صبر کیجیے اور (ان سے) ہمارے بندے داؤد کا قصہ بیان کیجیے جو طاقت کے مالک اور (اللہ کی طرف) بار بار رجوع کرنے والے تھے۔

17۔ طاقت کے مالک سے مراد ممکن ہے جسمانی طاقت ہو۔ جیسا کہ طاغوت کے مقابلے میں آپ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور ممکن ہے روحانی طاقت مراد ہو۔

ذَا الۡاَیۡدِ : یعنی قوت والا۔ وہ روحانی اور جسمانی قوت کے مالک تھے۔

اِنَّہٗۤ اَوَّابٌ : بار بار رجوع سے مراد عبادت ہے۔ چنانچہ احادیث میں آیا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام سب سے زیادہ عبادت گزار تھے۔

اِنَّا سَخَّرۡنَا الۡجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحۡنَ بِالۡعَشِیِّ وَ الۡاِشۡرَاقِ ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔ہم نے ان کے لیے پہاڑوں کو مسخر کیا تھا، یہ صبح و شام ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے۔

وَ الطَّیۡرَ مَحۡشُوۡرَۃً ؕ کُلٌّ لَّہٗۤ اَوَّابٌ﴿۱۹﴾

۱۹۔اور پرندوں کو بھی (مسخر کیا)، یہ سب اکٹھے ہو کر ان کی طرف رجوع کرنے والے تھے

19۔ اس موضوع کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انبیاء آیت 79۔

وَ شَدَدۡنَا مُلۡکَہٗ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡحِکۡمَۃَ وَ فَصۡلَ الۡخِطَابِ﴿۲۰﴾

۲۰۔ اور ہم نے ان کی سلطنت مستحکم کر دی اور انہیں حکمت عطا کی اور فیصلہ کن گفتار (کی صلاحیت) دے دی۔

20۔ یعنی گفتگو میں پیچیدگی نہیں ہوتی تھی۔ دو ٹوک الفاظ میں بات کرتے تھے۔ بعض نے کہا ہے: فَصۡلَ الۡخِطَابِ سے مراد زبور ہے۔ حکمت حقائق کا فہم اور ادراک کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔