وَ لَقَدۡ سَبَقَتۡ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الۡمُرۡسَلِیۡنَ﴿۱۷۱﴾ۚۖ

۱۷۱۔ اور بتحقیق ہمارے بندگان مرسل سے ہمارا یہ وعدہ ہو چکا ہے۔

171۔ وَ لَقَدۡ سَبَقَتۡ کَلِمَتُنَا : کلمۃ یعنی اللہ کا حتمی فیصلہ اور یقینی وعدہ۔ اللہ تعالیٰ جب اپنے رسولوں کو ایک مقصد اور ایک منزل کا تعین کر کے اس کی طرف روانہ فرماتا ہے تو اس وقت اس بات کا فیصلہ بھی ہو چکا ہوتا ہے کہ مرسلین اپنے مشن میں کامیاب رہیں گے۔ اللہ ناکام ہونے والے مشن کی طرف نہیں بھیجتا۔ البتہ مرسلین کو اس کامیابی کے لیے انتہائی مشکلات کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ اللہ کے اس فیصلے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بلا زحمت چشم زدن میں کامیابی مل جایا کرے گی۔

اِنَّہُمۡ لَہُمُ الۡمَنۡصُوۡرُوۡنَ﴿۱۷۲﴾۪

۱۷۲۔ یقینا وہ مدد کیے جانے والے ہیں،

وَ اِنَّ جُنۡدَنَا لَہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ﴿۱۷۳﴾

۱۷۳۔ اور یقینا ہمارا لشکر ہی غالب آ کر رہے گا۔

173۔غالب ہونے کا مطلب وہ نہیں جو وقتی نگاہ سے دیکھنے والے کو نظر آتا ہے کہ فرعون و نمرود کو جو بالادستی حاصل ہے وہ ابراہیم و موسیٰ علیہما السلام کو حاصل نہیں ہے۔ یزید کی وسیع حکومت قائم ہو جاتی ہے لیکن اس کے مقابلے میں حضرت امام حسین علیہ السلام اور مدینے کے مہاجرین و انصار بے بس ہیں اور آج استعماری قوتوں کو بالادستی حاصل ہے اور حق کے ماننے والے تہی دست ہیں، بلکہ غالب آنے سے مراد یہ ہے کہ آج نمرود و فرعون کی طاقت خاک میں مل گئی، لیکن کرہ ارض پر ابراہیم و موسیٰ علیہما السلام زندہ ہیں۔ ابوجہل تاریخ کی تاریک تہوں میں دفن ہو گیا مگر عبد اللہ کے یتیم کا بول بالا ہے۔ یزید کا نام داخل دشنام ہے جبکہ حسین علیہ السلام کا نام فاتحین میں سرِفہرست ہے۔

فَتَوَلَّ عَنۡہُمۡ حَتّٰی حِیۡنٍ﴿۱۷۴﴾ۙ

۱۷۴۔ لہٰذا آپ ایک مدت تک ان سے منہ پھیر لیں۔

وَّ اَبۡصِرۡہُمۡ فَسَوۡفَ یُبۡصِرُوۡنَ﴿۱۷۵﴾

۱۷۵۔ اور انہیں دیکھتے رہیں کہ عنقریب یہ خود بھی دیکھ لیں گے۔

175۔ اور چشم عالم نے دیکھ لیا کہ اس آیت کے نزول کے چند سال بعد رسول اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فاتح بن کر مکے میں داخل ہو گئے اور یہ لوگ یا تو نابود ہو گئے یا اگر موجود تھے تو طلقاء (آزاد شدہ ) کے طور پر زندہ رہے اور انہیں کچھ بیت المال سے مل بھی جاتا تھا تو مؤلفۃ القلوب کی مد سے۔ یوں وہ اسلام کی طرف سے خیرات کھاتے رہے۔

اَفَبِعَذَابِنَا یَسۡتَعۡجِلُوۡنَ﴿۱۷۶﴾

۱۷۶۔ کیا یہ ہمارے عذاب میں عجلت چاہ رہے ہیں؟

فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِہِمۡ فَسَآءَ صَبَاحُ الۡمُنۡذَرِیۡنَ﴿۱۷۷﴾

۱۷۷۔ پس جب یہ (عذاب) ان کے دالان میں اترے گا تو تنبیہ شدگان کی صبح بہت بری ہو گی۔

وَ تَوَلَّ عَنۡہُمۡ حَتّٰی حِیۡنٍ﴿۱۷۸﴾ۙ

۱۷۸۔ اور آپ ایک مدت تک ان سے منہ پھیر لیں۔

وَّ اَبۡصِرۡ فَسَوۡفَ یُبۡصِرُوۡنَ﴿۱۷۹﴾

۱۷۹۔ اور دیکھتے رہیں عنقریب یہ خود بھی دیکھ لیں گے۔

سُبۡحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الۡعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ﴿۱۸۰﴾ۚ

۱۸۰۔ آپ کا رب جو عزت کا رب ہے ان باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں۔

وَ سَلٰمٌ عَلَی الۡمُرۡسَلِیۡنَ﴿۱۸۱﴾ۚ

۱۸۱۔ اور پیغمبروں پر سلام ہو۔

وَ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۸۲﴾٪

۱۸۲۔ اور ثنائے کامل اس اللہ کے لیے ہے جو عالمین کا رب ہے۔