بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ وَ لَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ۙ﴿۱﴾

۱۔ اے نبی اللہ سے ڈریں اور کفار اور منافقین کی اطاعت نہ کریں، اللہ یقینا بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے۔

1۔ مجمع البیان اور الدر المنثور میں آیا ہے کہ قریش کے چند افراد ابوسفیان کی سرکردگی میں حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے امان لے کر مدینہ آئے اور مدینہ کے منافقین بھی ان کے ساتھ ہم آواز ہوئے اور بولے: اے محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم! آپ ہمارے معبودوں کو کچھ نہ کہیں۔ ہم آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رب کو کچھ نہیں کہیں گے۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر یہ بات شاق گزری۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔

وَّ اتَّبِعۡ مَا یُوۡحٰۤی اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا ۙ﴿۲﴾

۲۔ اور آپ کے رب کی طرف سے آپ کی طرف جو وحی کی جاتی ہے اس کی اتباع کریں، اللہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔

وَّ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا﴿۳﴾

۳۔ اور اللہ پر توکل کریں اور ضامن بننے کے لیے اللہ کافی ہے۔

مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنۡ قَلۡبَیۡنِ فِیۡ جَوۡفِہٖ ۚ وَ مَا جَعَلَ اَزۡوَاجَکُمُ الّٰٓیِٴۡ تُظٰہِرُوۡنَ مِنۡہُنَّ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ وَ مَا جَعَلَ اَدۡعِیَآءَکُمۡ اَبۡنَآءَکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ قَوۡلُکُمۡ بِاَفۡوَاہِکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَقُوۡلُ الۡحَقَّ وَ ہُوَ یَہۡدِی السَّبِیۡلَ﴿۴﴾

۴۔ اللہ نے کسی شخص کے پہلو میں دو دل نہیں رکھے ہیں اور تمہاری ازواج کو جنہیں تم لوگ ماں کہ بیٹھتے ہو ان کو اللہ نے تمہاری مائیں نہیں بنایا اور نہ ہی تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے (حقیقی) بیٹے بنایا، یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور اللہ حق بات کہتا اور(سیدھا) راستہ دکھاتا ہے۔

4۔ دل ایک، مؤقف بھی ایک، دستور زندگی بھی ایک۔ ایک انسان بیک وقت دو مؤقف اختیار نہیں کر سکتا۔ ایمان کے ساتھ نفاق اور کفر کے ساتھ اسلام جمع نہیں ہو سکتا۔

جاہلیت میں لوگ اپنی عورت سے اگر یہ کہتے: تیری پیٹھ میرے لیے میری ماں کی پیٹھ جیسی ہے، تو اسے طلاق شمار کرتے تھے اور ایسا کرنے والے پر عورت ماں کی طرح حرام ہو جاتی تھی۔ اسلام نے اس جاہلی قانون کو ختم کر کے قانون ظہار بنایا جس کے تحت شوہر کفارہ دے کر بیوی کو اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے۔ اسی طرح اسلام نے جاہلیت کی ایک اور رسم کو بھی ختم کیا جس کے تحت منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹوں کی طرح وارث بنایا جاتا تھا۔ یہ رسم اس موقع پر باطل ہوئی جب رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زید بن حارثہ کی مطلقہ حضرت زینبؓ سے عقد فرمایا۔ چونکہ زیدبن حارثہ کو حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مکی زندگی میں اپنا بیٹا بنا لیا تھا، اس لیے منافقین اور کمزور ایمان والے مسلمانوں نے یہ کہنا شروع کر دیا : محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے لیے تو حرام کرتے ہیں، لیکن خود اپنی بہو سے شادی کرتے ہیں۔

اُدۡعُوۡہُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ ہُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اٰبَآءَہُمۡ فَاِخۡوَانُکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ مَوَالِیۡکُمۡ ؕ وَ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ فِیۡمَاۤ اَخۡطَاۡتُمۡ بِہٖ ۙ وَ لٰکِنۡ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿۵﴾

۵۔ منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو اللہ کے نزدیک یہی قرین انصاف ہے، پھر اگر تم ان کے باپوں کو نہیں جانتے تو یہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں اور جو تم سے غلطی سے سرزد ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے، البتہ اس بات پر (گناہ ضرور ہے) جسے تمہارے دل جان بوجھ کر انجام دیں اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحیم ہے۔

اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ ؕ وَ اُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلٰی بِبَعۡضٍ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ تَفۡعَلُوۡۤا اِلٰۤی اَوۡلِیٰٓئِکُمۡ مَّعۡرُوۡفًا ؕ کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا﴿۶﴾

۶۔ نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے اور نبی کی ازواج ان کی مائیں ہیں اور کتاب اللہ کی رو سے رشتے دار آپس میں مومنین اور مہاجرین سے زیادہ حقدار ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرنا چاہو، یہ حکم کتاب میں لکھا ہوا ہے۔

6۔ اس آیت میں تین اہم نکات بیان ہوئے ہیں:

الف:نبی کی ولایت مطلقہ یعنی نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی امت کے ہر فرد سے زیادہ اولیٰ بالتصرف ہیں یعنی جو اختیارات مومنین کو خود اپنے اوپر حاصل نہیں ہیں وہ نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حاصل ہیں، قانونی طور پر بھی اور جسمانی لحاظ سے بھی کہ اگر نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حکم ہو تو اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا واجب ہے، جبکہ یہ اختیار از خود نہیں ہے۔

ب: وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ : ازواج نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مومنین کے لیے قابل احترام اور حرمت نکاح کے لحاظ سے ماں کی طرح ہیں۔ البتہ نگاہ کرنے اور اولاد سے نکاح کرنے میں ماں کی طرح نہیں ہیں۔

ج۔ ابتدا میں مہاجرت اور مؤاخات کے ذریعے توارث کا ایک وقتی قانون نافذ تھا، اس آیت کے ذریعے اسے منسوخ کر دیا گیا اور بتایا گیا کہ میراث میں رشتہ دار زیادہ حقدار ہیں۔ باپ اور اس کی اولاد اُولُوا الْاَرْحَامِ کے مصداق اول ہیں اور میراث میں طبقہ اولیٰ میں ہیں۔ حضرت زہرا سلام اللّٰہ علیہا نے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی میراث کے بارے میں اسی آیت سے استدلال فرمایا۔

اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا : اپنے دوستوں پر احسان سے مراد وصیت ہے۔ وصیت کی صورت میں ارحام کے بغیر حصہ دار بن جاتے ہیں، مگر صرف ایک تہائی میں۔

وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیۡثَاقَہُمۡ وَ مِنۡکَ وَ مِنۡ نُّوۡحٍ وَّ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ ۪ وَ اَخَذۡنَا مِنۡہُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا ۙ﴿۷﴾

۷۔اور (یاد کرو) جب ہم نے انبیاء سے عہد لیا اور آپ سے بھی اور نوح سے بھی اور ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے بھی اور ان سب سے ہم نے پختہ عہد لیا۔

7۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے بالعموم اور اولوالعزم انبیاء سے بالخصوص ایک پختہ عہد لیا ہے۔ اس عہد سے کون سا عہد مراد ہے۔ اس آیت میں اس کی وضاحت نہیں ہے، تاہم یہ معلوم ہے کہ یہ عہد انبیاء علیہم السلام کی رسالت سے متعلق ہے۔ عہد و میثاق لے کر چھوڑا نہیں جاتا، بلکہ اس عہد کو پورا کر کے اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے والوں سے سوال ہو گا، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: وَ لَنَسۡـَٔلَنَّ الۡمُرۡسَلِیۡنَ

لِّیَسۡـَٔلَ الصّٰدِقِیۡنَ عَنۡ صِدۡقِہِمۡ ۚ وَ اَعَدَّ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا اَلِیۡمًا ٪﴿۸﴾

۸۔ تاکہ سچ کہنے والوں سے ان کی سچائی کے بارے میں دریافت کرے اور کفار کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

9۔ اس آیت اور اس کے بعد کی چند آیات میں جنگ خندق اور غزوہ بنی قریظہ کے واقعات کی طرف اشارہ ہے، جس لشکر نے مدینہ پر چڑھائی کی تھی وہ قریش قبیلہ غطفان اور یہود کا لشکر تھا۔ اس لشکر نے مدینہ کو محاصرے میں لیے لیا۔ محاصرے کو تقریباً ایک مہینہ ہوا تھا، سرد ترین موسم میں ایک سرد ترین آندھی چلی جس سے دشمن کے پاؤں اکھڑ گئے اور نظر نہ آنے والے لشکر سے مراد فرشتے ہی ہو سکتے ہیں۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَآءَتۡکُمۡ جُنُوۡدٌ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا وَّ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرًا ۚ﴿۹﴾

۹۔ اے ایمان والو! اللہ کی وہ نعمت یاد کرو جو اس نے تم پر کی جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر آندھی بھیجی اور تمہیں نظر نہ آنے والے لشکر بھیجے اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھ رہا تھا۔

اِذۡ جَآءُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ وَ مِنۡ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ وَ اِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ وَ بَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوۡنَا﴿۱۰﴾

۱۰۔ جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور (مارے دہشت کے) دل (کلیجے) منہ کو آگئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔

10۔ اوپر سے یعنی مدینے کی مشرقی جانب سے آنے والے بنی قریظہ کے یہود تھے اور نیچے سے یعنی مغرب کی جانب سے آنے والے قریش اور ان کے ہم نوا تھے۔ اس وقت منافقین اور کمزور ایمان والے کہنے لگے: اب اسلام مٹ جائے گا۔ کفار کی طرف سے 15 ہزار افراد پر مشتمل لشکر نے مدینے پر حملہ کر دیا اور مدینے کا محاصرہ ہوا۔ لشکر اسلام نے سلمان فارسیؓ کے مشورے سے خندق کھود لی۔ عمرو بن عبدود نے خندق پھلانگ کر مبارزہ طلبی کی۔ علی بن ابی طالب علیہ السلام کے علاوہ کوئی مقابلہ کے لیے تیار نہ ہوا۔ علی علیہ السلام نے ایک وار میں عمرو کو قتل کیا تو لشکر کفر فرار ہو گیا۔