آیت 6
 

اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ ؕ وَ اُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلٰی بِبَعۡضٍ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ تَفۡعَلُوۡۤا اِلٰۤی اَوۡلِیٰٓئِکُمۡ مَّعۡرُوۡفًا ؕ کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا﴿۶﴾

۶۔ نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے اور نبی کی ازواج ان کی مائیں ہیں اور کتاب اللہ کی رو سے رشتے دار آپس میں مومنین اور مہاجرین سے زیادہ حقدار ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرنا چاہو، یہ حکم کتاب میں لکھا ہوا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی: نبیؐ مومنین کی جانوں پر خود مؤمنین سے زیادہ تصرف کا حق رکھتے ہیں۔ چونکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولایت اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا تسلسل ہے لہٰذا نبیؐ کو مومنین پر ہر اعتبار سے ولایت و حاکمیت حاصل ہے۔ ایسی حاکمیت جو مومنین کی خود مختاری کے منافی نہ ہو:

لاَ تَکُنْ عَبْدَ غَیْرِکَ وَ قَدْ جَعَلَکَ اللہُ حُرّاً۔ ( نہج البلاغۃ : ۳۱ وصیت نامہ برائے امام حسن علیہ السلام۔ مستدرک الوسائل ۷: ۲۳۱)

دوسروں کے غلام نہ بن جاؤ جب اللہ نے تمہیں آزاد بنایا ہے۔

ایسی حاکمیت جو مومن کو عزت و سرفرازی دے:

وَ لِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ وَ لِرَسُوۡلِہٖ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔۔۔۔ (۶۳ منافقون: ۸)

عزت تو اللہ، اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے۔

چونکہ اس ہستی کو حاکمیت کا حق دیا جا رہا ہے جو رحمۃ للعالمین ہے اور مومنوں پر تو حضوصی طور پر شفیق و مہربان ہے۔

لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ (۹توبۃ: ۱۲۸)

بتحقیق تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے اور مومنین کے لیے نہایت شفیق، مہربان ہے۔

اس ہستی کی اطاعت اور اس کے حکم کے نفاذ سے مومن ہر قید و بند سے آزاد ہو جاتا ہے:

وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۱۵۷)

اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں۔

لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولایت مطلقہ ہے اور مومن کے تمام جوانب پر محیط ہے۔ مومن کی اپنی جان سے رسول کی جان عزیز ہے۔ حدیث ہے:

و الذی نفسی بیدہ لا یؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من نفسہ و مالہ و ولدہ و الناس اجمعین۔۔۔۔ ( بحار الانوار ۲: ۱۸۲)

قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کے نزدیک میں، اس کی جان و مال و اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو۔

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان مؤمن کی اپنی جان سے اولیٰ ہے کا مطلب یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کو اگر کوئی خطرہ لاحق ہو جائے تو مؤمن پر فرض ہے کہ وہ اپنی جان کا نذرانہ دے کر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچائے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش مؤمن کی خواہش پر مقدم ہے کہ مؤمن کی کسی چیز کی خواہش ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش اس کے خلاف ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش مقدم ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کھانا کھا رہا ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے بلائیں تو اس پر واجب ہے کہ کھانا ترک کر کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر لبیک کہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسولؐ کے بلانے پر کھانا ترک نہ کرنے والے کو یہ بددعا ملی:

لا اشبع اللہ بطنہ۔ (بحار الانوار ۲۲: ۲۴۸)

اللہ اسے شکم سیری نصیب نہ کرے۔

کسی معاملے میں خواہ دینی ہو یا دنیوی، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیصلہ خود مومن کے اپنے فیصلے پر مقدم ہے:

وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیۡنًا (۳۳ احزاب: ۳۶)

اور کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اللہ اور اس کے رسول کسی معاملے میں فیصلہ کریں تو انہیں اپنے معاملہ کا اختیار حاصل رہے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہو گیا۔

جنہیں اللہ کی طرف سے حاکمیت کا حق حاصل ہے، وہ مؤمنین کی مصلحت اور مفاد کے مطابق حکومت کرتے ہیں۔ وہ اپنی حاکمیت کے ذریعے مؤمنین کی عزت، آزادی اور مفادات کو تحفظ دیتے ہیں جب کہ جنہیں اللہ کی طرف سے یہ حق حاصل نہیں ہے وہ اپنی خواہش، اپنے مفادات کے مطابق حکومت کرتے ہیں۔

حضرت ابی، عبداللّٰہ بن مسعود اور ابن عباس کے نزدیک و ھو اَب لہم کی عبارت آیت کا حصہ ہے اور حضرت ابی کے مصحف میں یہ جملہ ثبت تھا۔ ( مجمع البیان۔ روح المعانی )

۲۔ وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ: اور نبی کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔ ازواج نبی مومنوں کی مائیں صرف اس لحاظ سے ہیں کہ مومنین پر ان کا احترام واجب ہے اور ان کے ساتھ نکاح کرنا اسی طرح حرام ہے جس طرح اپنی حقیقی ماؤں کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے:

وَ لَاۤ اَنۡ تَنۡکِحُوۡۤا اَزۡوَاجَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖۤ اَبَدًا ۔۔ (۳۳ احزاب: ۵۳)

اور ان کی ازواج سے ان کے بعد کبھی بھی نکاح نہ کرو۔

باقی احکام میں وہ ماں کی طرح نہیں ہیں۔ سب مومنین ان کے لیے نامحرم ہیں۔ ان پر سب مومنین سے پردہ کرنا واجب تھا۔ ان ازواج کی صاحبزادیاں مومنین کے لیے مادری بہنیں نہیں ہیں کہ ان سے نکاح حرام ہو جائے۔ ان کے بھائی بہن مومنین کے خالہ اور ماموں نہیں ہیں کہ کوئی شخص خال المومنین بن جائے اور کوئی خاتون اخت المومنین بن جائے۔ اس طرح ماں ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ وہ مومنین کی وارث بن جائیں یا مومنین ان کے وارث بن جائیں۔

مولانا مودودی نے اس آیت کے ذیل میں طبرسی کی ایک روایت اصل کتاب کی طرف رجوع کیے بغیر نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

یا ابالحسن ان ھذا الشرف باق ما دمنا علی طاعۃ اللّٰہ تعالیٰ فایتھن عصت اللّٰہ تعالیٰ بعدی بالخروج علیک فطلقھا من الازواج و اسقطھا من شرف امھات المومنین ۔ (اصل عبارت مادمن ہے۔ جب تک ازواج اللہ کی اطاعت پر قائم ہیں۔ انہوں نے یہ عبارت روح المعانی سے لی ہو گی چونکہ اس میں اس غلطی کے ساتھ یہ عبارت موجود ہے۔)

اے ابوالحسن! یہ شرف تو اسی وقت تک باقی ہے جب تک ہم لوگ اللہ کی اطاعت پر قائم رہیں۔ میری بیویوں میں سے جو بھی میرے بعد تیرے خلاف خروج کر کے اللہ کی نافرمانی کرے اسے تو طلاق دیجیو اور اس کو امہات المومنین کے شرف سے ساقط کر دیجیو۔

۳۔ وَ اُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلٰی بِبَعۡضٍ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ: ہجرت کے بعد مدینہ میں اسلامی معاشرہ تشکیل دینے والے مہاجرین و انصار تھے۔ مہاجرین اپنے گھر کاروبار اور رشتہ داروں سے دور زندگی گزار رہے تھے اس لیے رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرت اور مواخاۃ کے ذریعے ایک وقتی قانون نافذ فرمایا جس کے تحت مہاجرین و انصار مواخاۃ کے ذریعے ایک دوسرے کے وارث بن جاتے تھے۔ اس آیت کے ذریعے مواخاۃ کے ذریعے توارث کا قانون منسوخ ہو گیا اور بتایا گیا کہ آیندہ خونی رشتہ داری میں اقربیت کی بنیاد پر وراثت تقسیم ہو گی۔

وراثت اس آیت کی صراحت کی بنا پر رشتہ داری کی بنیاد پر تقسیم ہو گی اور رشتہ داری میں سب سے زیادہ قریب ترین اولاد اور والدین ہیں جو وراثت کی تقسیم میں موجود طبقات میں طبقہ اولیٰ میں آتے ہیں۔ لہٰذا باپ اور اس کی اولاد اس آیت کے مصداق اول ہیں۔

چنانچہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے وارث ہونے پر اس آیت سے استدلال فرمایا۔میراث رسولؐ کے بارے میں تفصیل کے ملاحظہ ہو سورہ نمل آیت ۱۶۔ سورہ مریم آیت ۶۔

۴۔ اِلَّاۤ اَنۡ تَفۡعَلُوۡۤا اِلٰۤی اَوۡلِیٰٓئِکُمۡ مَّعۡرُوۡفًا: اپنے دوستوں پر احسان سے مراد وصیت ہے۔ وصیت کی صورت میں ارحام یعنی رشتہ داری کے بغیر حصہ دار بن جاتے ہیں۔ وصیت کی صورت میں وصیت کرنے والے کے اموال میں سے صرف ایک تہائی میں وصیت نافذ ہے۔

۵۔ کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا: وراثت کا یہ قانون اس کتاب میں درج ہے جس میں اللہ کے تمام اٹل فیصلے لکھ ہوئے ہیں۔ اس سے مراد لوح محفوظ ہو سکتی ہے اور قرآن بھی۔ اللہ تعالیٰ نے وارثت کے اس حکم کو بیان کرنے میں ایک خاص اہمیت کا اظہار فرمایا۔ ایک مرتبہ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ فرما کر یہ حکم کتاب اللہ میں اور دوسری بار کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا یہ حکم کتاب میں درج ہے فرما کر مزید تاکید فرمائی۔

اہم نکات

۱۔ کسی کو ماں، بہن اور بیٹا کہنے سے حقیقت نہیں بدلتی۔

۲۔ نبی کا حکم خود مومن کے اپنے ارادے سے زیادہ نافذ ہے: اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی۔۔۔۔


آیت 6