آیت 9
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَآءَتۡکُمۡ جُنُوۡدٌ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا وَّ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرًا ۚ﴿۹﴾

۹۔ اے ایمان والو! اللہ کی وہ نعمت یاد کرو جو اس نے تم پر کی جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر آندھی بھیجی اور تمہیں نظر نہ آنے والے لشکر بھیجے اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھ رہا تھا۔

تفسیر آیات

یہ آیت اور اس کے بعد چند آیات جنگ احزاب جسے جنگ خندق بھی کہتے ہیں کے بارے میں نازل ہوئیں۔

جنگ احزاب کا واقعہ اس طرح پیش آیا:

احد کی جنگ کے بعد قریش نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ آئندہ سال بدر میں ہمارا آمنا سامنا ہو گا۔ اسلامی لشکر نے مقررہ تاریخ کو بدر میں آٹھ دن ابوسفیان اور اس کے لشکر کا انتظار کیا مگر وہ بدر میں آنے کی جرأت نہ کر سکا۔ اس سے پہلے یہود کے قبیلہ بنی نضیر کی سازش فاش ہو گئی تھی جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کرنے کی تدبیر سوچی تھی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دس دن کے اندر مدینہ چھوڑنے کا حکم دیا۔ بنی نضیر نے حکم ماننے سے انکار کیا۔ چنانچہ دس دن ختم ہونے پر بنی نضیر کا محاصرہ کیا گیا۔ چند دنوں میں وہ مدینہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور یہود مدینہ سے نکل کر خیبر، شام و دیگر علاقوں میں منتشر ہو گئے۔

اس طرح حضورؐ نے بنی غطفان کی سازش ناکام بنا دی۔ وہ مدینے پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ ان پر مسلمانوں کی طرف سے اچانک حملہ ہوتا ہے اور وہ منتشر ہو جاتے ہیں۔

جنگ احزاب: ان حالات میں مدینہ کے مسلمانوں کو کچلنے کے لیے عرب قبائل اور یہود نے مل کر ایک بہت بڑا لشکر تیار کیا۔ چنانچہ سنہ ۵ ھ میں مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لیے آ گئے۔ ان میں مدینہ سے جلا وطن ہونے والے بنی نضیر اور بنی قینقاع کے یہودی اور غطفان، بنو سلیم، فزارہ، مرہ، اشجع، سعد اور اسد وغیرہ کے قبائل اور قریش کا ایک بڑا لشکر شامل تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبل از وقت اس خطرناک حملے کا علم ہو جاتا ہے۔ حضرت سلمان فارسی (رض) کے مشورے پر شہر مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی اور شہر کو محفوظ کر لیا گیا۔ خندق کھودنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرے عام مسلمانوں کی طرح حصہ لیا۔

اہل عرب اس طریق دفاع سے ناآشنا تھے اس لیے ان کی جنگی حکمت عملی میں اس کا کوئی حل معلوم نہ تھا۔ لہٰذا طویل اقامت کے لیے وہ تیار ہو کر نہیں آئے تھے۔ اس نئی صورت حال کا مقابلہ کرنے کی ان کے پاس صرف ایک صورت رہتی تھی۔ وہ یہ کہ مدینہ میں آباد بنی قریظہ کے یہودیوں کو مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ توڑنے پر آمادہ کیاجائے چونکہ اسی معاہدے کی وجہ سے اس یہودی علاقے میں مسلمانوں نے کوئی دفاعی انتظام نہیں کیا تھا۔ دشمن نے اس علاقے سے فائدہ اٹھانے کو ہی غنیمت سمجھا۔ چنانچہ بنی نضیر کا وفد بنی قریظہ کے ہاں گیا اور انہیں عہد توڑنے پر آمادہ کیا جس سے مسلمانوں میں نہایت بے چینی پیدا ہو گئی۔ جسے قرآن نے ان لفظوں کے ساتھ ذکر کیا ہے:

وَ اِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ وَ بَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوۡنَا (۳۳ سورہ احزاب۔۱۰)

اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور (مارے دہشت کے) دل (کلیجے) منہ کو آ گئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔

شہر کا وہ علاقہ بھی غیر محفوظ ہو گیا جہاں دفاع کا کوئی انتظام نہ تھا۔ چنانچہ بعض منافقین نے تو یہ کہنا شروع کیا محمد قیصر و کسریٰ کی فتح کی نوید سناتے ہیں، ادھر ہم رفع حاجت کے لیے بھی نہیں نکل سکتے۔ کچھ لوگوں نے خندق سے نکل جانے کی اجازت مانگنا شروع کی۔

ادھر محاصرے کو ۲۵ دن سے زیادہ ہو چکے تھے۔ دوسری طرف حملہ آوروں اور بنی قریظہ میں پھوٹ بھی پڑ چکی تھی جس سے حملہ آوروں کے حوصلے پست ہو گئے تھے۔ زمانہ بھی سردی کا تھا۔ اسی اثناء میں عربوں میں مشہور بہادروں نے انفرادی طورپر جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا اور ایک تنگ جگہ سے خندق پار کر کے مبارزہ طلبی کی۔ ان میں سب سے مشہور شخص عمرو بن عبدود تھا جس نے بلند آواز سے پکارا: ہے کوئی میرے مقابلے میں آنے والا؟ حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی: یا رسول اللہؐ میں اس کے مقابلے کے لیے حاضر ہوں۔ فرمایا: یہ عمرو ہے۔ بیٹھ جاؤ۔ جب کوئی جواب نہ آیا تو اس نے تمسخر کے طور پر کہا: تمہاری وہ جنت کہاں ہے جس کے بارے میں تمہارا یہ زعم ہے کہ تم میں سے جو مارا جائے گا وہ جنت جائے گا؟ تو حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی: میں حاضر ہوں یا رسول اللہ!۔ پھر عمرو بن عبدود نے تیسری مرتبہ پکارا تو حضرت علی علیہ السلام نے عرض کیا: میں حاضر ہوں یارسول اللہ! فرمایا: یہ عمرو ہے۔ عرض کیا: پھر بھی حاضر ہوں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی۔

حاکم حسکانی کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو ذات الفصول نامی زرہ پہنائی، اپنی تلوار ذوالفقار عنایت کی اور اپنا عمامہ جو عمامۂ سحاب مشہور تھا پہنایا۔ پھر فرمایا: آگے بڑھو۔ پھر فرمایا:

برز الایمان کلہ الی الکفر کلہ ۔ ( عوالی اللالی ۴: ۸۸۔ شرح نہج البلاغۃ ۱۳: ۲۶۱۔ اس میں الکفر کی جگہ الشرک آیا ہے)

کل کا کل ایمان، کل کے کل کفر کے مقابلے میں نکلا ہے۔

علی علیہ السلام کو دیکھ کر عمرو نے کہا تم کون ہو؟ فرمایا: میں علی ہوں۔ کہا: میں تمہارا خون بہانا نہیں چاہتا۔ فرمایا: مگر میں تمہارا خون بہانا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر وہ غصے میں آتا ہے اور گھوڑے سے اتر کر حضرت علی علیہ السلام پر حملہ کرتا ہے۔ آپ علیہ السلام نے اپنی ڈھال کو آگے کیا۔ اس کی تلوار ڈھال میں پھنس گئی اور حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک پر زخم آیا۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس پرحملہ کیا۔ وہ زمین پر گر پڑا اور گرد و غبار اُٹھا۔ اس میں سے حضرت علی علیہ السلام کی تکبیر کی آواز سنائی دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی نے اسے قتل کر دیا اور فرمایا:

لضربۃ علی خیر من عبادۃ الثقلین ۔ ( بحارالانوار ۱: ۳۹)

علی کی ایک ضربت جن و انس کی عبادت سے بہتر ہے۔

ایک رات کڑک اور چمک کے ساتھ شدید آندھی آئی جس سے دشمن کے خیمے اکھڑ گئے۔ دشمن اس صورت حال کا مقابلہ نہ کر سکے اور راتوں رات میدان چھوڑ کر چلے گئے۔ صبح کو مسلمانوں نے دیکھا کہ دشمن نے راہ فرار اختیار کر لی ہے اور میدان دشمن سے خالی ہو گیا ہے۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

و لا یغزوننا بعد الیوم و نحن نغزوہم ان شاء اللہ ۔ (شرح نہج البلاغۃ ۱۹:۶۲)

آج کے بعد وہ ہم پر حملہ نہیں کر سکیں گے۔ انشاء اللہ ہم ان پر حملہ کریں گے۔

۱۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ: اہل ایمان کو خندق کی جنگ میں اللہ کی طرف سے ملنے والی نعمت کا ذکر ہے۔ اس نعمت سے مراد امن کی نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو دشمن کے حملے سے محفوظ رکھا۔

۲۔ جَآءَتۡکُمۡ جُنُوۡدٌ: ان لشکروں کی طرف اشارہ ہے جو اس جنگ میں شرکت کر رہے تھے۔ عام طور پر جنگ میں دونوں طرف ایک لشکر ہوتا ہے خواہ ایک طرف کا لشکر دوسری طرف کے لشکر سے بڑا یا چھوٹا ہو۔ جیسے جنگ بدر میں دو ہی لشکروں کا مقابلہ تھا لیکن اس جنگ میں اسلام کے صرف ایک لشکر کے مقابلے میں دشمن کے متعدد لشکر صف آرا تھے۔

بنی نصیر اور بنی قینقاع کے یہود کا لشکر۔

ii۔ غطفان کے قبائل کا لشکر۔

iii۔ قریش مکہ کا لشکر۔

ان تمام لشکروں میں بارہ ہزار افراد شریک تھے۔

۳۔ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا: دشمن پر یکایک ایک شدید آندھی بھیجی جس کے زور سے ان کے خیمے اکھڑ گئے، ان میں شدید اضطراب پیدا ہوا اور راتوں رات وہ میدان چھوڑ کر چلے گئے۔

۴۔ وَّ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا: ایسا لشکر بھیجا جو ظاہری دید میں نہ آتا تھا لیکن یہ طاقت ایک نہیں کئی لشکروں کا کام کر رہی تھی۔ ان لشکروں سے مراد فرشتے بھی ہو سکتے ہیں چونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ہی کے ذریعے داخلی طاقت فراہم فرماتا ہے۔


آیت 9