ہُنَالِکَ ابۡتُلِیَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ زُلۡزِلُوۡا زِلۡزَالًا شَدِیۡدًا﴿۱۱﴾

۱۱۔ اس وقت مومنین خوب آزمائے گئے اور انہیں پوری شدت سے ہلا کر رکھ دیا گیا۔

وَ اِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اِلَّا غُرُوۡرًا﴿۱۲﴾

۱۲۔ اور جب منافقین اور دلوں میں بیماری رکھنے والے کہ رہے تھے: اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھا۔

12۔ یعنی یہ وعدہ صرف فریب ہے کہ مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے فتح و نصرت حاصل ہو گی۔ اس بات کے کہنے میں منافقین کے ساتھ کچھ ضعیف الایمان لوگ بھی شامل تھے۔ لہٰذا اس بات کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ قرآن کی تصریح کے مطابق رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہم عصروں میں تین گروہ تھے: پختہ ایمان والے، کمزور ایمان والے اور منافقین۔ چنانچہ ان تینوں کا ان آیات میں صراحت کے ساتھ ذکر ملتا ہے۔

وَ اِذۡ قَالَتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ یٰۤاَہۡلَ یَثۡرِبَ لَا مُقَامَ لَکُمۡ فَارۡجِعُوۡا ۚ وَ یَسۡتَاۡذِنُ فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمُ النَّبِیَّ یَقُوۡلُوۡنَ اِنَّ بُیُوۡتَنَا عَوۡرَۃٌ ؕۛ وَ مَا ہِیَ بِعَوۡرَۃٍ ۚۛ اِنۡ یُّرِیۡدُوۡنَ اِلَّا فِرَارًا ﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور جب ان میں سے ایک گروہ کہنے لگا: اے یثرب والو! تمہارے لیے یہاں ٹھہرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے پس لوٹ جاؤ اور ان میں سے ایک گروہ نبی سے اجازت طلب کر رہا تھا یہ کہتے ہوئے: ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ وہ کھلے نہیں تھے، وہ صرف بھاگنا چاہتے تھے۔

13۔ ان منافقین اور کمزور ایمان والوں کا یہ کہنا تھا کہ اب یثرب یعنی مدینے میں اسلام کے دامن میں ٹھہرنے کا موقع نہیں رہا۔ فَارۡجِعُوۡا اپنی پرانی جاہلیت کی طرف واپس جانا چاہیے۔ محاذ چھوڑ کر جانے کو ارجعوا واپس جاؤ، نہیں کہتے بلکہ فرار کہتے ہیں۔ فرار کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ اپنے گھروں کی حفاظت کا بہانہ بنا کر جنگ میں شرکت سے اجتناب کرنا چاہتے تھے۔

وَ لَوۡ دُخِلَتۡ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ اَقۡطَارِہَا ثُمَّ سُئِلُوا الۡفِتۡنَۃَ لَاٰتَوۡہَا وَ مَا تَلَبَّثُوۡا بِہَاۤ اِلَّا یَسِیۡرًا﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور اگر (دشمن) ان پر شہر کے اطراف سے گھس آتے پھر انہیں اس فتنے کی طرف دعوت دی جاتی تو وہ اس میں پڑ جاتے اور اس میں صرف تھوڑا ہی توقف کرتے۔

14۔ جبکہ اگر دشمن انہیں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی دعوت دیتے تو وہ اس دعوت پر لبیک کہنے میں تاخیر نہ کرتے۔

وَ لَقَدۡ کَانُوۡا عَاہَدُوا اللّٰہَ مِنۡ قَبۡلُ لَا یُوَلُّوۡنَ الۡاَدۡبَارَ ؕ وَ کَانَ عَہۡدُ اللّٰہِ مَسۡـُٔوۡلًا﴿۱۵﴾

۱۵۔ حالانکہ پہلے یہ لوگ اللہ سے عہد کر چکے تھے کہ پیٹھ نہیں پھیریں گے اور اللہ کے ساتھ ہونے والے عہد کے بارے میں بازپرس ہو گی۔

15۔ یعنی جنگ احد میں فرار کے بعد عہد لیا گیا تھا کہ آئندہ فرار نہیں ہوں گے۔ لیکن ان لوگوں نے بدعہدی کی۔ واضح رہے جنگ احد میں منافقین نے شرکت نہیں کی تھی، فرار ہونے والے لوگ ضعیف الایمان تھے۔

قُلۡ لَّنۡ یَّنۡفَعَکُمُ الۡفِرَارُ اِنۡ فَرَرۡتُمۡ مِّنَ الۡمَوۡتِ اَوِ الۡقَتۡلِ وَ اِذًا لَّا تُمَتَّعُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا﴿۱۶﴾

۱۶۔ کہدیجئے: اگر تم لوگ موت یا قتل سے فرار چاہتے ہو تو یہ فرار تمہیں فائدہ نہ دے گا اور (زندگی کی) لذت کم ہی حاصل کر سکو گے۔

قُلۡ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَعۡصِمُکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ اِنۡ اَرَادَ بِکُمۡ سُوۡٓءًا اَوۡ اَرَادَ بِکُمۡ رَحۡمَۃً ؕ وَ لَا یَجِدُوۡنَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیۡرًا﴿۱۷﴾

۱۷۔ کہدیجئے: اللہ سے تمہیں کون بچا سکتا ہے اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے؟ یا تم پر رحمت کرنا چاہے(تو کون روک سکتا ہے؟) اور یہ لوگ اللہ کے سوا کسی کو نہ ولی پائیں گے اور نہ مددگار۔

قَدۡ یَعۡلَمُ اللّٰہُ الۡمُعَوِّقِیۡنَ مِنۡکُمۡ وَ الۡقَآئِلِیۡنَ لِاِخۡوَانِہِمۡ ہَلُمَّ اِلَیۡنَا ۚ وَ لَا یَاۡتُوۡنَ الۡبَاۡسَ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔ اللہ تم میں سے رکاوٹیں ڈالنے والوں کو خوب جانتا ہے اور ان کو جو اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں: ہماری طرف آؤ اور جو جنگ میں کبھی کبھار ہی شرکت کرتے ہیں۔

18۔ تمہارے درمیان موجود ان منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کی ان باتوں سے اللہ واقف ہے، جو کہتے ہیں: چھوڑ دو اس دین و مذہب کی باتوں کو اور ہماری طرح عافیت کی راہ اختیار کرو۔

اَشِحَّۃً عَلَیۡکُمۡ ۚۖ فَاِذَا جَآءَ الۡخَوۡفُ رَاَیۡتَہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَیۡکَ تَدُوۡرُ اَعۡیُنُہُمۡ کَالَّذِیۡ یُغۡشٰی عَلَیۡہِ مِنَ الۡمَوۡتِ ۚ فَاِذَا ذَہَبَ الۡخَوۡفُ سَلَقُوۡکُمۡ بِاَلۡسِنَۃٍ حِدَادٍ اَشِحَّۃً عَلَی الۡخَیۡرِ ؕ اُولٰٓئِکَ لَمۡ یُؤۡمِنُوۡا فَاَحۡبَطَ اللّٰہُ اَعۡمَالَہُمۡ ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرًا﴿۱۹﴾

۱۹۔ تم سے دریغ رکھتے ہیں چنانچہ جب خوف کا وقت آ جائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ وہ آنکھیں پھیرتے ہوئے ایسے آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہو، پھر جب خوف ٹل جاتا ہے تو وہ مفاد کی حرص میں چرب زبانی کے ساتھ تم پر بڑھ چڑھ کر بولیں گے، یہ لوگ ایمان نہیں لائے اس لیے اللہ نے ان کے اعمال حبط کر دیے اور یہ اللہ کے لیے (بہت) آسان ہے۔

19۔ ان لوگوں نے اگر اچھے اعمال انجام دیے ہیں تو بھی ان کے اعمال حبط ہو گئے، کیونکہ ان کے اعمال میں اچھائی ہو تو بھی خود ان لوگوں میں کوئی اچھائی نہیں ہے۔ نہ حسن ایمان، نہ حسن نیت۔

اَشِحَّۃً عَلَیۡکُمۡ : تمہارا ساتھ دینے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ نہ جان کی قربانی دیتے ہیں، نہ مال کی۔ البتہ کامیابی کی صورت میں مالی مفادات حاصل کرنے اور غنیمت میں حصہ جتانے کے لیے چرب زبانی کے ساتھ بولیں گے۔ اسلامی تاریخ ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے کہ جن لوگوں نے رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جہاد میں ایک کافر کو بھی نہیں مارا، بعد میں اسلام کے پھلنے اور پھیلنے کے بعد انہی لوگوں نے سب سے زیادہ مفادات حاصل کیے۔

فَاَحۡبَطَ اللّٰہُ اَعۡمَالَہُمۡ : منافقین کا کوئی عمل، ابتدا ہی سے عمل تصور نہیں ہوتا کہ بعد میں حبط ہو جائے۔ یہ ان مسلمانوں کا ذکر ہے جن کا عمل جنگ سے فرار نہ ہونے کی صورت میں قبول ہونا تھا۔

یَحۡسَبُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ لَمۡ یَذۡہَبُوۡا ۚ وَ اِنۡ یَّاۡتِ الۡاَحۡزَابُ یَوَدُّوۡا لَوۡ اَنَّہُمۡ بَادُوۡنَ فِی الۡاَعۡرَابِ یَسۡاَلُوۡنَ عَنۡ اَنۡۢبَآئِکُمۡ ؕ وَ لَوۡ کَانُوۡا فِیۡکُمۡ مَّا قٰتَلُوۡۤا اِلَّا قَلِیۡلًا﴿٪۲۰﴾

۲۰۔ یہ خیال کر رہے ہیں کہ (ابھی) فوجیں گئی نہیں ہیں اور اگر وہ پھر حملہ کریں تو یہ آرزو کریں گے کہ کاش! صحرا میں دیہاتوں میں جا بسیں اور تمہاری خبریں پوچھتے رہیں، اگر وہ تمہارے درمیان ہوتے تو لڑائی میں کم ہی حصہ لیتے۔