آیت 4
 

مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنۡ قَلۡبَیۡنِ فِیۡ جَوۡفِہٖ ۚ وَ مَا جَعَلَ اَزۡوَاجَکُمُ الّٰٓیِٴۡ تُظٰہِرُوۡنَ مِنۡہُنَّ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ وَ مَا جَعَلَ اَدۡعِیَآءَکُمۡ اَبۡنَآءَکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ قَوۡلُکُمۡ بِاَفۡوَاہِکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَقُوۡلُ الۡحَقَّ وَ ہُوَ یَہۡدِی السَّبِیۡلَ﴿۴﴾

۴۔ اللہ نے کسی شخص کے پہلو میں دو دل نہیں رکھے ہیں اور تمہاری ازواج کو جنہیں تم لوگ ماں کہ بیٹھتے ہو ان کو اللہ نے تمہاری مائیں نہیں بنایا اور نہ ہی تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے (حقیقی) بیٹے بنایا، یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور اللہ حق بات کہتا اور(سیدھا) راستہ دکھاتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنۡ قَلۡبَیۡنِ: اللہ نے انسان کے پہلو میں دو قلب نہیں بنائے کہ دو متصادم نظریات ایک شخص میں جمع ہو جائیں۔ ایک دل میں کفر و ایمان میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ لہٰذا جن کے دلوں میں نفاق ہے ان میں ایمان نہیں آ سکتا اور جن کے دلوں میں اسلام سے بغض ہے ان میں محبت نہیں آ سکتی۔ جو منافقین، مشرکین کے ساتھ مل کر اسلام کے لیے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے تجاویز دیتے ہیں ان کے دلوں میں اسلام کے ساتھ عداوت ہے۔ ان دلوں میں اسلام کے ساتھ ہمدردی نہیں آ سکتی۔ لہٰذا تم ان کے فریب میں نہ آؤ۔

اس آیت میں ان لوگوں کے بارے میں فیصلہ کن موقف کا بیان ہے جو اسلام کو بھی ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ساتھ غیر اسلامی قوانین کے حامی ہیں۔ اس طرح وہ اسلام کو مسترد اور قبول کرنے میں کسی قسم کا تضاد نہیں سمجھتے۔ وہ بزعم خود شریعت کے منکر بھی نہیں ہیں اور شریعت سے متصادم طاغوت سے فیصلے لینے میں کوئی حرج بھی نہیں سمجھتے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بہت سے معاصر مسلمانوں کے پہلو میں کئی قلب ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

لا یجتمع حبّنا و حبّ عدوّنا فی جوف انسان ۔ ( بحارالانوار ۲۴: ۳۱۸)

کسی انسان کے دل میں ہماری محبت اور ہمارے دشمنوں کی محبت جمع نہیں ہو سکتی۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

ما جعل اللہ لرجل من قلبین فی جوفہ یحب بھذا قوما و یحب بھذا اعدائہم ۔ ( مجمع البیان )

اللہ نے ایک شخص کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے کہ ایک دل سے کسی قوم سے محبت کرے اور دوسرے دل سے اس کے دشمنوں سے محبت کرے۔

۲۔ وَ مَا جَعَلَ اَزۡوَاجَکُمُ الّٰٓیِٴۡ تُظٰہِرُوۡنَ: عربوں میں رواج تھا کہ اگر کسی نے اپنی بیوی سے کہہ دیا: تیری پیٹھ میرے لیے میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے تو وہ عورت اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی۔ اصطلاح میں اسے ظہار کہتے ہیں۔ اس آیت میں صرف یہ فرمایا کہ کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ عورت ماں نہیں بنتی۔ ماں وہ ہے جس نے تمہیں جنا ہے۔ظہار کے احکام سورۂ مجادلہ آیت ۲۔ ۴ میں بیان کیے گئے ہیں۔

۳۔ وَ مَا جَعَلَ اَدۡعِیَآءَکُمۡ اَبۡنَآءَکُمۡ: نہ ہی اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹا بنایا۔ اس آیت کے نزول کے بعد منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹے کی حیثیت دینا ممنوع ہو گیا۔ سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ پر یہ حکم نافذ ہوا جنہیں لوگ زید بن محمد کہتے تھے اور اس رسم کو ختم کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زید کی مطلقہ زینب بنت حجش سے ازدواج فرمایا۔

۴۔ ذٰلِکُمۡ قَوۡلُکُمۡ بِاَفۡوَاہِکُمۡ: منہ بولے کو بیٹا کہنا صرف تمہاری لفظی تعبیر ہے۔ کسی امر واقع کی نشاندہی نہیں ہے۔ اس لفظی تعبیر سے حقیقت نہیں بدلتی۔ حقیقت میں وہ اپنے باپ کا بیٹا ہے۔

۵۔ وَ اللّٰہُ یَقُوۡلُ الۡحَقَّ: اللہ امر واقع اور حقیقت کی نشاندہی فرماتا ہے کہ انہیں اپنے حقیقی باپ کی طرف نسبت دیا کرو۔

اہم نکات

۱۔ ایک دل میں دو متضاد عقیدے جمع نہیں ہو سکتے۔ مِّنۡ قَلۡبَیۡنِ فِیۡ جَوۡفِہٖ۔۔۔۔


آیت 4