توارث کا ایک عارضی قانون


اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ ؕ وَ اُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلٰی بِبَعۡضٍ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ تَفۡعَلُوۡۤا اِلٰۤی اَوۡلِیٰٓئِکُمۡ مَّعۡرُوۡفًا ؕ کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا﴿۶﴾

۶۔ نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے اور نبی کی ازواج ان کی مائیں ہیں اور کتاب اللہ کی رو سے رشتے دار آپس میں مومنین اور مہاجرین سے زیادہ حقدار ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرنا چاہو، یہ حکم کتاب میں لکھا ہوا ہے۔

6۔ اس آیت میں تین اہم نکات بیان ہوئے ہیں:

الف:نبی کی ولایت مطلقہ یعنی نبی ﷺ اپنی امت کے ہر فرد سے زیادہ اولیٰ بالتصرف ہیں یعنی جو اختیارات مومنین کو خود اپنے اوپر حاصل نہیں ہیں وہ نبی ﷺ کو حاصل ہیں، قانونی طور پر بھی اور جسمانی لحاظ سے بھی کہ اگر نبی ﷺ کا حکم ہو تو اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا واجب ہے، جبکہ یہ اختیار از خود نہیں ہے۔

ب: وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ : ازواج نبی ﷺ مومنین کے لیے قابل احترام اور حرمت نکاح کے لحاظ سے ماں کی طرح ہیں۔ البتہ نگاہ کرنے اور اولاد سے نکاح کرنے میں ماں کی طرح نہیں ہیں۔

ج۔ ابتدا میں مہاجرت اور مؤاخات کے ذریعے توارث کا ایک وقتی قانون نافذ تھا، اس آیت کے ذریعے اسے منسوخ کر دیا گیا اور بتایا گیا کہ میراث میں رشتہ دار زیادہ حقدار ہیں۔ باپ اور اس کی اولاد اُولُوا الْاَرْحَامِ کے مصداق اول ہیں اور میراث میں طبقہ اولیٰ میں ہیں۔ حضرت زہرا سلام اللّٰہ علیہا نے رسول اللہ ﷺ کی میراث کے بارے میں اسی آیت سے استدلال فرمایا۔

اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا : اپنے دوستوں پر احسان سے مراد وصیت ہے۔ وصیت کی صورت میں ارحام کے بغیر حصہ دار بن جاتے ہیں، مگر صرف ایک تہائی میں۔