آیات 7 - 8
 

وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیۡثَاقَہُمۡ وَ مِنۡکَ وَ مِنۡ نُّوۡحٍ وَّ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ ۪ وَ اَخَذۡنَا مِنۡہُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا ۙ﴿۷﴾

۷۔اور (یاد کرو) جب ہم نے انبیاء سے عہد لیا اور آپ سے بھی اور نوح سے بھی اور ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے بھی اور ان سب سے ہم نے پختہ عہد لیا۔

لِّیَسۡـَٔلَ الصّٰدِقِیۡنَ عَنۡ صِدۡقِہِمۡ ۚ وَ اَعَدَّ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا اَلِیۡمًا ٪﴿۸﴾

۸۔ تاکہ سچ کہنے والوں سے ان کی سچائی کے بارے میں دریافت کرے اور کفار کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیۡثَاقَہُمۡ: انبیاء علیہم السلام سے جو عہد و میثاق لیا گیا ہے وہ ان کی نبوت کے منصب سے متعلق ہے۔ لہٰذا یہ عہد و میثاق تبلیغ رسالت اور لوگوں کو توحید کی طرف دعوت اور اس راہ میں پیش آنے والے مصائب پر صبر کے بارے میں ہو سکتا ہے۔

بعض مفسرین نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس میثاق میں یہ بات بھی شامل ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خبر اپنی امتوں کو دے دیں۔

۲۔ وَ مِنۡکَ: اور آپ ؐسے بھی۔ خصوصی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اس بات کی طرف اشارے کے لیے ہو سکتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام سے جو عہد و میثاق لیا ہے ان میں آپؐ سے جو عہد لیا گیا ہے وہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور سب سے قدیم ترین اور اولین عہد ہے۔ چنانچہ روایت میں آیا ہے۔ ابن عباس راوی ہیں کہ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! یہ میثاق کب لیا گیا تھا؟ جواب میں فرمایا:

وآدم بین الروح والجسد۔۔۔۔ ( روح المعانی ذیل آیہ)

جب آدم روح اور جسم کے درمیان تھا۔

۳۔ وَ مِنۡ نُّوۡحٍ وَّ اِبۡرٰہِیۡمَ: ان اولوالعزم پیغمبران کو خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا چونکہ جو انبیاء علیہم السلام صاحبان شریعت ہیں ان کی مسؤلیت زیادہ اور سنگین تھی۔

۴۔ وَ اَخَذۡنَا مِنۡہُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا: یہ غلیظ، پختہ اور سخت میثاق بظاہر اوالوالعزم انبیاء علیہم السلام سے لیا گیا۔ یہ ان عہد و میثاق کے علاوہ کوئی اضافی عہد تھا جو صرف ان بزرگ انبیاء علیہم السلام سے لیا گیا ہے۔

۵۔ لِّیَسۡـَٔلَ الصّٰدِقِیۡنَ: انبیاء علیہم السلام سے یہ عہد و میثاق اس لیے لیا گیا تاکہ قیامت کے دن جب ان سے سوال ہو گا تو ان کی سچائی ظاہر ہو۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا:

یَوۡمَ یَجۡمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوۡلُ مَا ذَاۤ اُجِبۡتُمۡ۔۔۔۔ (۵ مائدۃ: ۱۰۹)

(اس دن کا خوف کرو) جس دن اللہ سب رسولوں کو جمع کر کے ان سے پوچھے گا: (امتوں کی طرف سے) تمہیں کیا جواب ملا؟

دوسری تفسیر یہ ہو سکتی ہے: قیامت کے دن انبیاء علیہم السلام سے سوال و جواب میں انبیاءعلیہم السلام کی دعوت کی سچائی ظاہر ہو جائے گی اور اس دعوت کی سچائی کے نتیجے میں مومن کو ثواب اور منکر کو عذاب دینا لازم آئے گا۔


آیات 7 - 8