وَ لَنُذِیۡقَنَّہُمۡ مِّنَ الۡعَذَابِ الۡاَدۡنٰی دُوۡنَ الۡعَذَابِ الۡاَکۡبَرِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور ہم انہیں بڑے عذاب کے علاوہ کمتر عذاب کا ذائقہ بھی ضرور چکھائیں گے، شاید وہ باز آ جائیں۔

21۔ احادیث کے مطابق کمتر عذاب سے مراد دنیاوی مصائب، بیماریاں اور سختیاں ہیں جو کافر کے لیے عذاب اور مومن کے لیے تزکیہ و طہارت کی موجب ہیں۔

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعۡرَضَ عَنۡہَا ؕ اِنَّا مِنَ الۡمُجۡرِمِیۡنَ مُنۡتَقِمُوۡنَ﴿٪۲۲﴾

۲۲۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جسے اس کے رب کی نشانیاں سمجھا دی گئی ہوں پھر وہ ان سے منہ موڑ لے؟ ہم مجرموں سے ضرور بدلہ لینے والے ہیں۔

22- دوسرا ترجمہ یہ ہو سکتا ہے: اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جس کی اپنے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی گئی ہو۔

انبیاء ہر مطالبے پر معجزہ پیش نہیں کرتے، کیونکہ اگر معجزات کے بعد بھی ایمان نہ لائیں تو اللہ فوری انتقام لیتا ہے۔ اس آیت میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ آیات الہٰی کے ذریعے حجت پوری ہو گئی ہو، پھر انکار کیا جائے تو انتقام الہٰی کی نوبت آ جاتی ہے۔

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَلَا تَکُنۡ فِیۡ مِرۡیَۃٍ مِّنۡ لِّقَآئِہٖ وَ جَعَلۡنٰہُ ہُدًی لِّبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ﴿ۚ۲۳﴾

۲۳۔ اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی ہے لہٰذا آپ اس (قرآن) کے ملنے میں کسی شبہے میں نہ رہیں اور ہم نے اس کتاب کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت(کا ذریعہ) بنایا۔

23۔ یہ قرآن کا طرز خطاب ہے کہ جسے بہت زیادہ اہمیت دینا مقصود ہو وہاں خطاب براہ راست رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہوتا ہے اور بتانا دوسروں کو مقصود ہوتا ہے۔ لِّقَآئِہٖ میں ضمیر الۡکِتٰبَ کی طرف ہے اور لِقَآءَ تَلَقِّی کے معنوں میں ہے، جیسے کِتٰبًا یَّلۡقٰىہُ مَنۡشُوۡرًا میں ہے۔ یعنی ہم نے جیسے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی ہے، آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی کتاب دی ہے۔ لہٰذا آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کتاب (قرآن) کے ملنے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر اس لیے ہوا کہ رسالتمآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ آپ علیہ السلام کی بہت سی خصوصیات ایک جیسی ہیں۔

وَ جَعَلۡنَا مِنۡہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا لَمَّا صَبَرُوۡا ۟ؕ وَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یُوۡقِنُوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ اور جب انہوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیات پر یقین رکھے ہوئے تھے تو ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو امام بنایا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں۔

24۔ ہر امت میں ایک گروہ کو امامت کا عہدہ صبر و یقین کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔ علم کی وجہ سے صبر اور یقین کی وجہ سے عصمت وجود میں آتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام اس لیے معصوم ہوتے ہیں کہ وہ یقین کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہوتے ہیں اور عصمت کے مقام پر فائز ہونے کے بعد امامت کی منزل پر فائز ہو جاتے ہیں۔

اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ یَفۡصِلُ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فِیۡمَا کَانُوۡا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔ یقینا آپ کا رب قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ سنا دے گا جن میں یہ لوگ اختلاف کرتے رہے ہیں۔

اَوَ لَمۡ یَہۡدِ لَہُمۡ کَمۡ اَہۡلَکۡنَا مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنَ الۡقُرُوۡنِ یَمۡشُوۡنَ فِیۡ مَسٰکِنِہِمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ ؕ اَفَلَا یَسۡمَعُوۡنَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ کیا انہیں اس بات سے ہدایت نہیں ملی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کر دیا ہے جن کی قیام گاہوں میں یہ لوگ چلتے پھرتے ہیں، بتحقیق اس میں نشانیاں ہیں، تو کیا یہ لوگ سنتے نہیں؟

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّا نَسُوۡقُ الۡمَآءَ اِلَی الۡاَرۡضِ الۡجُرُزِ فَنُخۡرِجُ بِہٖ زَرۡعًا تَاۡکُلُ مِنۡہُ اَنۡعَامُہُمۡ وَ اَنۡفُسُہُمۡ ؕ اَفَلَا یُبۡصِرُوۡنَ ﴿۲۷﴾ ۞ؓ

۲۷۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم بنجر زمینوں کی طرف پانی روانہ کرتے ہیں پھر اس سے کھیتی پیدا کرتے ہیں جس سے ان کے جانور بھی کھاتے ہیں اور خود بھی، تو کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں؟

وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡفَتۡحُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور یہ لوگ کہتے ہیں: اگر تم سچے ہو تو (بتاؤ) یہ فیصلہ کب ہو گا؟

قُلۡ یَوۡمَ الۡفَتۡحِ لَا یَنۡفَعُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِیۡمَانُہُمۡ وَ لَا ہُمۡ یُنۡظَرُوۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ کہدیجئے: فیصلے کے دن کفار کو ان کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔

29۔ یَوۡمَ الۡفَتۡحِ سے مراد بعض نے یوم بدر اور بعض نے فتح مکہ لیا ہے، لیکن سیاق آیت کے مطابق اس سے مراد یوم قیامت ہے۔

فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ وَ انۡتَظِرۡ اِنَّہُمۡ مُّنۡتَظِرُوۡنَ﴿٪۳۰﴾

۳۰۔ ان سے منہ پھیر لیں اور انتظار کریں، یقینا یہ بھی انتظار کر رہے ہیں۔

30۔ کافروں کی طرف سے تکذیب و توہین اس قابل نہیں ہے کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان چیزوں کو درخوراعتنا سمجھیں۔ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنی فتح و نصرت اور کافروں کی رسوائی کا انتظار کرنا چاہیے۔