آیت 10
 

اِذۡ جَآءُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ وَ مِنۡ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ وَ اِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ وَ بَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوۡنَا﴿۱۰﴾

۱۰۔ جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور (مارے دہشت کے) دل (کلیجے) منہ کو آگئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِذۡ جَآءُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ: مدینہ کے مشرقی علاقے سے آنے والے لوگ ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے غطفان کے قبائل اور یہود کے لشکر ہوں۔

۲۔ وَ مِنۡ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ: نچلی طرف سے آنے والے لشکروں سے مراد قریش اور ان سے ملحق ہونے والے دوسرے لشکر ہو سکتے ہیں۔

۳۔ وَ اِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ: لشکروں نے مدینے کا مختلف سمتوں سے اس طرح محاصرہ کیا تھا کہ حملے کی صورت میں بچنے کی کوئی ظاہری امید نظر نہیں آتی تھی۔ واحد دفاعی ذریعہ خندق تھا۔ یہ بھی بنی قریظہ کے یہود کی عہد شکنی کے بعد غیر مؤثر نظر آتا تھا۔ ان حالات میں کچھ لوگوں کی آنکھیں پتھرا گئیں اور دل، کلیجے منہ کو آ گئے۔

زَاغَتِ: زیغ کے معنی کجی کے ہیں۔ یعنی آنکھیں حقائق کا درست مشاہدہ کرنے سے قاصر ہو گئی تھیں۔

۴۔ وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوۡنَا: اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ منافقین اور کمزور ایمان والے اسلام کی حقانیت، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے کہ اب جاہلیت لوٹ آنے والی ہے وغیرہ وغیرہ۔


آیت 10