آیت 5
 

اُدۡعُوۡہُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ ہُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اٰبَآءَہُمۡ فَاِخۡوَانُکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ مَوَالِیۡکُمۡ ؕ وَ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ فِیۡمَاۤ اَخۡطَاۡتُمۡ بِہٖ ۙ وَ لٰکِنۡ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿۵﴾

۵۔ منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو اللہ کے نزدیک یہی قرین انصاف ہے، پھر اگر تم ان کے باپوں کو نہیں جانتے تو یہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں اور جو تم سے غلطی سے سرزد ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے، البتہ اس بات پر (گناہ ضرور ہے) جسے تمہارے دل جان بوجھ کر انجام دیں اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحیم ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اُدۡعُوۡہُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ: ان کی نسبت اپنے باپوں کی طرف دینا منصفانہ عمل ہے اور جو اس کا حقیقی باپ نہیں ہے اسے باپ کی حیثیت دینا منصفانہ نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت اور امر واقع سے انحراف ہے۔

۲۔ فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا: اگر حقیقی باپ کا علم نہیں ہے تو بھی غیر حقیقی باپ کی طرف نسبت دینا درست نہیں ہے۔ اس صورت میں وہ تمہارے دینی بھائی کہلائیں گے۔ وَ مَوَالِیۡکُمۡ: وہ تمہارے دوست کہلائیں گے۔ موالی آزاد کردہ غلام کو بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ زید رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام تھا۔ آپؐ نے اسے آزاد کیا۔ اس نے اپنے باپ کے ساتھ جانے سے انکار کیا تو باپ نے کہا یہ میرا بیٹا نہیں ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: زید میرا بیٹا ہے۔ لوگ بھی زید بن محمد کہتے تھے۔ اس آیت کے نزول کے بعد زید کو مولی رسول اللہ (ص) کہا جانے لگا۔

۳۔ وَ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ: اگر تکیہ کلام کی وجہ سے یا پیار میں کسی کو بیٹا، بیٹی، بہن یا ماں کہہ دیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حرج اس میں ہے کہ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ تم دل سے حقیقتاً کسی کو واقعی بیٹا وغیرہ قرار دو اور نسلوں کو حقیقی بنیاد پر نہیں، جعلی بنیاد پر ملاؤ۔ یہ جائز نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ حقیقی نسب کا تحفظ ہونا چاہیے: اُدۡعُوۡہُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ۔۔۔۔


آیت 5