مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنۡ قَلۡبَیۡنِ فِیۡ جَوۡفِہٖ ۚ وَ مَا جَعَلَ اَزۡوَاجَکُمُ الّٰٓیِٴۡ تُظٰہِرُوۡنَ مِنۡہُنَّ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ وَ مَا جَعَلَ اَدۡعِیَآءَکُمۡ اَبۡنَآءَکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ قَوۡلُکُمۡ بِاَفۡوَاہِکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَقُوۡلُ الۡحَقَّ وَ ہُوَ یَہۡدِی السَّبِیۡلَ﴿۴﴾

۴۔ اللہ نے کسی شخص کے پہلو میں دو دل نہیں رکھے ہیں اور تمہاری ازواج کو جنہیں تم لوگ ماں کہ بیٹھتے ہو ان کو اللہ نے تمہاری مائیں نہیں بنایا اور نہ ہی تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے (حقیقی) بیٹے بنایا، یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور اللہ حق بات کہتا اور(سیدھا) راستہ دکھاتا ہے۔

4۔ دل ایک، مؤقف بھی ایک، دستور زندگی بھی ایک۔ ایک انسان بیک وقت دو مؤقف اختیار نہیں کر سکتا۔ ایمان کے ساتھ نفاق اور کفر کے ساتھ اسلام جمع نہیں ہو سکتا۔

جاہلیت میں لوگ اپنی عورت سے اگر یہ کہتے: تیری پیٹھ میرے لیے میری ماں کی پیٹھ جیسی ہے، تو اسے طلاق شمار کرتے تھے اور ایسا کرنے والے پر عورت ماں کی طرح حرام ہو جاتی تھی۔ اسلام نے اس جاہلی قانون کو ختم کر کے قانون ظہار بنایا جس کے تحت شوہر کفارہ دے کر بیوی کو اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے۔ اسی طرح اسلام نے جاہلیت کی ایک اور رسم کو بھی ختم کیا جس کے تحت منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹوں کی طرح وارث بنایا جاتا تھا۔ یہ رسم اس موقع پر باطل ہوئی جب رسول اللہ ﷺ نے زید بن حارثہ کی مطلقہ حضرت زینبؓ سے عقد فرمایا۔ چونکہ زیدبن حارثہ کو حضور ﷺ نے مکی زندگی میں اپنا بیٹا بنا لیا تھا، اس لیے منافقین اور کمزور ایمان والے مسلمانوں نے یہ کہنا شروع کر دیا : محمد ﷺ ہمارے لیے تو حرام کرتے ہیں، لیکن خود اپنی بہو سے شادی کرتے ہیں۔