بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

کٓہٰیٰعٓصٓ ۟﴿ۚ۱﴾

۱۔ کاف ، ہا، یا، عین، صاد۔

ذِکۡرُ رَحۡمَتِ رَبِّکَ عَبۡدَہٗ زَکَرِیَّا ۖ﴿ۚ۲﴾

۲۔ یہ اس رحمت کا ذکر ہے جو آپ کے رب نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی۔

2۔ اس آیت میں اس بات پر روشنی ڈالی جا رہی ہے کہ اللہ اپنے صالح بندوں کی خواہش کس طرح پوری کرتا ہے۔ اگر بندہ خلوص دل سے اللہ سے اپنی ساری امیدیں وابستہ کرتا ہے تو ظاہری وسائل کے فقدان کے باوجود اللہ تعالیٰ اسباب پیدا کرتا ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام خود بڑھاپے میں ہیں اور ان کی زوجہ پہلے ہی بانجھ ہیں۔

اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآءً خَفِیًّا﴿۳﴾

۳۔جب انہوں نے اپنے رب کو دھیمی آواز میں پکارا ۔

3۔ اس سے آداب دعا کا ایک اہم پہلو معلوم ہوا کہ اللہ کو دھیمی آواز میں پکارنا چاہیے۔

قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ وَہَنَ الۡعَظۡمُ مِنِّیۡ وَ اشۡتَعَلَ الرَّاۡسُ شَیۡبًا وَّ لَمۡ اَکُنۡۢ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا﴿۴﴾

۴۔عرض کی: میرے رب! میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور بڑھاپے کی وجہ سے سر کے سفید بال چمکنے لگے ہیں اور اے میرے رب! میں تجھ سے مانگ کر کبھی ناکام نہیں رہا۔

وَ اِنِّیۡ خِفۡتُ الۡمَوَالِیَ مِنۡ وَّرَآءِیۡ وَ کَانَتِ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرًا فَہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۙ﴿۵﴾

۵۔ اور میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے پس تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما۔

4۔5 وَلِيًّا سے مراد اولاد ہے۔ چنانچہ سورﮤ آل عمران آیت 38 میں ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے فرمایا: قَالَ رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ۔ پروردگار مجھے اپنی عنایت سے صالح اولاد عطا فرما۔

یَّرِثُنِیۡ : جو میرا وارث بنے۔ خِفۡتُ الۡمَوَالِیَ میں مَوَالِیَ سے مراد سب کے نزدیک چچا اور چچا زاد ہیں، جو اولاد نہ ہونے کی صورت میں وارث بنتے ہیں۔ جن کے وارث بننے کا حضرت زکریا علیہ السلام کو خوف تھا۔ ظاہر ہے یہ خوف نبوت کے وارث بننے کا نہ تھا، بلکہ نا اہل لوگوں کے وارث بننے کا خوف تھا۔ نا اہل لوگ نبوت کے وارث نہیں بن سکتے۔ اس سے ثابت ہوا کہ انبیاء علیہ السلام کے متروکات کے بھی وارث ہوتے ہیں۔ اس سے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا موقف قرآن کے مطابق ثابت ہوتا ہے اور مقابلے میں پیش کی جانے والی روایت قرآن کی صراحت کے خلاف جاتی ہے۔

یَّرِثُنِیۡ وَ یَرِثُ مِنۡ اٰلِ یَعۡقُوۡبَ ٭ۖ وَ اجۡعَلۡہُ رَبِّ رَضِیًّا﴿۶﴾

۶۔جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے اور میرے رب! اسے (اپنا) پسندیدہ بنا۔

یٰزَکَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِۣ اسۡمُہٗ یَحۡیٰی ۙ لَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ سَمِیًّا﴿۷﴾

۷۔ (جواب ملا) اے زکریا! ہم آپ کو ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہے، اس سے پہلے ہم نے کسی کو اس کا ہمنام نہیں بنایا۔

یَحۡیٰی یا یوحنا، یہ نام ان کے خاندان میں اس سے پہلے کسی کا نہ تھا۔ بعض نے سَمِیًّا سے مراد مثل و نظیر لیا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں تھی، لیکن پہلے معنی کو زیادہ ترجیح حاصل ہے۔

قَالَ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ کَانَتِ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرًا وَّ قَدۡ بَلَغۡتُ مِنَ الۡکِبَرِ عِتِیًّا﴿۸﴾

۸۔ عرض کی: میرے رب! میرے ہاں بیٹا کس طرح ہو گا جب کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بھی بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ چکا ہوں؟

8۔ بڑھاپے کی وجہ سے طاقت تولید ختم ہونے اور بیوی کے بانجھ ہونے کی صورت میں اولاد کی خوشخبری باعث تعجب ہے اور اس جملے میں اسی تعجب کا اظہار ہے یا ممکن ہے ایمان کے باوجود برائے اطمینان یہ سوال اٹھایا ہو۔

قَالَ کَذٰلِکَ ۚ قَالَ رَبُّکَ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ وَّ قَدۡ خَلَقۡتُکَ مِنۡ قَبۡلُ وَ لَمۡ تَکُ شَیۡئًا﴿۹﴾

۹۔ فرمایا: اسی طرح ہو گا، آپ کے رب کا ارشاد ہے: یہ تو میرے لیے آسان ہے، چنانچہ اس سے پہلے خود آپ کو بھی تو میں نے پیدا کیا جب کہ آپ کوئی چیز نہ تھے۔

9۔ بوڑھے باپ اور بانجھ عورت سے اولاد پیدا کرنا اللہ کا تخلیقی عمل ہے اور اللہ کا تخلیقی عمل ایک ارادے پر موقوف ہے، لہٰذا اللہ کے لیے کوئی بھی کام مشکل اور آسان نہیں ہوتا۔ سب کام اس کے لیے یکساں آسان ہیں۔

قَالَ رَبِّ اجۡعَلۡ لِّیۡۤ اٰیَۃً ؕ قَالَ اٰیَتُکَ اَلَّا تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا﴿۱۰﴾

۱۰۔ کہا: میرے رب! میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما، فرمایا: آپ کی نشانی یہ ہے کہ آپ تندرست ہوتے ہوئے بھی (کامل) تین راتوں تک لوگوں سے بات نہ کر سکیں گے۔