آیت 10
 

قَالَ رَبِّ اجۡعَلۡ لِّیۡۤ اٰیَۃً ؕ قَالَ اٰیَتُکَ اَلَّا تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا﴿۱۰﴾

۱۰۔ کہا: میرے رب! میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما، فرمایا: آپ کی نشانی یہ ہے کہ آپ تندرست ہوتے ہوئے بھی (کامل) تین راتوں تک لوگوں سے بات نہ کر سکیں گے۔

تفسیر آیات

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام کو اس بات کا بھی اطمینان کامل درکار تھا کہ اولاد کی خوشخبری واقعاً اللہ کی طرف سے ہے، کوئی خیالی یا شیطانی واہمہ تو نہیں ہے۔ اس لیے ایک ایسی نشانی کی درخواست کی جس سے یقین آ جائے کہ یہ خوشخبری اللہ طرف سے ہے۔

واضح رہے انبیاء علیہم السلام پر وحی کا نزول ان کے درجات کے مطابق ہوتا ہے۔ وحی کا درجہ اس نبی کے درجہ کے مطابق ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے بھی یہی مسئلہ درپیش تھا کہ پہلے اِنِّیۡۤ اَنَا اللّٰہُ میں اللہ ہوں کہہ کر خطاب فرمایا۔ بعد میں عصا اور ید بیضاء کے معجزوں کے ذریعے باور کرایا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔

لیکن خاتم الانبیاء ؐکے لیے اس قسم کی نشانی کی ضرورت نہیں پیش آئی بلکہ اِنِّیۡۤ اَنَا اللّٰہُ کی بھی ضرورت پیش نہیں آئی۔ براہ راست فرمایا: اِقۡرَاۡ ۔۔۔۔

چنانچہ حضرت زکریا علیہ السلام کو علامت یہ دی گئی کہ وہ تین رات تک لوگوں سے بات نہیں کر سکتے تھے۔ سَوِیًّا یہ بات نہ کر سکنا کسی بیماری کی وجہ سے نہ تھا۔ تندرست حالت میں بات نہیں کر سکتے تھے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی طرف سے وحی کو ناقابل شک و تردید بنایا جاتا ہے۔


آیت 10