فَخَرَجَ عَلٰی قَوۡمِہٖ مِنَ الۡمِحۡرَابِ فَاَوۡحٰۤی اِلَیۡہِمۡ اَنۡ سَبِّحُوۡا بُکۡرَۃً وَّ عَشِیًّا﴿۱۱﴾

۱۱۔ پھر وہ محراب سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے اشارتاً کہا: صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو۔

یٰیَحۡیٰی خُذِ الۡکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ ؕ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡحُکۡمَ صَبِیًّا ﴿ۙ۱۲﴾

۱۲۔ اے یحییٰ!کتاب (خدا)کو محکم تھام لو اور ہم نے انہیں بچپن ہی سے حکمت عطا کی تھی۔

12۔ بچپن میں ان کو حکمت عنایت ہوئی سے مراد عقل و فہم بھی ہو سکتے ہیں اور نبوت بھی۔ یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے منتخب بندوں کو ابتدائے طفولیت ہی میں الہی منصب سے نوازے۔ اس کے دیگر شواہد اور نظیریں بھی موجود ہیں۔

٭حضرت یحییٰ کے علیہ السلام کے عہد کا بادشاہ ہیرود اپنے بھائی کی بیوی پر فریفتہ ہو گیا تھا۔ حضرت یحیٰ اس بات پر ہیرود کی ملامت کرتے تھے۔ اس پر ہیرود نے ان کو گرفتار کیا۔ بعد میں اس فاحشہ عورت کی خواہش پر حضرت یحییٰ علیہ السلام کا سر قلم کر کے ایک تھال میں رکھ کر اس کو نذر کیا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک بھی تھال میں رکھ کر یزید کو پیش کیا جانا تھا۔ اس شباہت کی بنا پر امام حسین علیہ السلام حضرت یحییٰ کو یاد کرکے گریہ فرمایا کرتے تھے۔

وَّ حَنَانًا مِّنۡ لَّدُنَّا وَ زَکٰوۃً ؕ وَ کَانَ تَقِیًّا ﴿ۙ۱۳﴾

۱۳۔اور اپنے ہاں سے مہر و پاکیزگی دی تھی اور وہ پرہیزگار تھے۔

وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیۡہِ وَ لَمۡ یَکُنۡ جَبَّارًا عَصِیًّا﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور وہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے اور سرکش و نافرمان نہیں تھے۔

وَ سَلٰمٌ عَلَیۡہِ یَوۡمَ وُلِدَ وَ یَوۡمَ یَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ یُبۡعَثُ حَیًّا﴿٪۱۵﴾

۱۵۔ اور سلام ہو ان پر جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن انہوں نے وفات پائی اور جس دن انہیں زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔

15۔ نہایت اہمیت کے حامل تین مراحل میں سے پہلا مرحلہ دنیاوی زندگی میں قدم رکھنا اور اس کی سلامتی ہے۔ دوسرا مرحلہ عالم آخرت کے لیے سفر کی ابتدا ہے، یعنی وفات کا دن اور تیسرا مرحلہ قیامت کا دن ہے۔ ان تین مرحلوں کے لیے سلامتی کا پیغام ہے۔

حضرت یحییٰ علیہ السلام کے واقعہ کے بیان کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے واقعے کا بیان ہے، کیونکہ دونوں کی ولادت معجزانہ طریقے سے ہوئی ہے اور دونوں کو عالم طفولیت میں الٰہی منصب ملا ہے۔

1۔ حضرت مریم علیہ السلام شہر ناصرہ میں قیام پذیر تھیں۔ زمانہ حمل میں آپ بیت اللحم کی طرف منتقل ہو گئیں۔

کون تسلیم کرے گا کہ بغیر باپ کے حمل ٹھہر گیا اور آنے والی تہمتوں کا میں کس طرح مقابلہ کر سکوں گی؟ صرف درد زہ کی وجہ سے نہیں شرمساری کی وجہ سے آبادی سے دور بیابان میں نکل گئیں اور کھجور کے ایک خشک درخت کے سائے میں پناہ لی۔

وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ مَرۡیَمَ ۘ اِذِ انۡتَبَذَتۡ مِنۡ اَہۡلِہَا مَکَانًا شَرۡقِیًّا ﴿ۙ۱۶﴾

۱۶۔ اور (اے رسول!) اس کتاب میں مریم کا ذکر کیجیے جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر مشرق کی جانب گئی تھیں۔

فَاتَّخَذَتۡ مِنۡ دُوۡنِہِمۡ حِجَابًا ۪۟ فَاَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہَا رُوۡحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا﴿۱۷﴾

۱۷۔ پھر انہوں نے ان سے پردہ اختیار کیا تھا پس ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا، پس وہ ان کے سامنے مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا۔

قَالَتۡ اِنِّیۡۤ اَعُوۡذُ بِالرَّحۡمٰنِ مِنۡکَ اِنۡ کُنۡتَ تَقِیًّا﴿۱۸﴾

۱۸۔ مریم نے کہا: اگر تو پرہیزگار ہے تو میں تجھ سے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں۔

قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوۡلُ رَبِّکِ ٭ۖ لِاَہَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا﴿۱۹﴾

۱۹۔ اس نے کہا: میں تو بس آپ کے رب کا پیغام رساں ہوں تاکہ آپ کو پاکیزہ بیٹا دوں۔

19۔ رَسُوۡلُ رَبِّکِ : آپ کے رب کا رسول ہوں۔ یعنی ایک کام کے لیے آپ کے رب کا فرستادہ ہوں۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس سے ثابت ہو رہا ہے کہ غیر نبی پر بھی جبرئیل کا نزول ہوتا ہے اور اللہ غیر نبی پر بھی اپنا رسول بھیجتا ہے۔

قَالَتۡ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ لَمۡ یَمۡسَسۡنِیۡ بَشَرٌ وَّ لَمۡ اَکُ بَغِیًّا﴿۲۰﴾ ۞ٙ

۲۰۔ مریم نے کہا : میرے ہاں بیٹا کیسے ہو گا؟ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں ہے اور میں کوئی بدکردار بھی نہیں ہوں۔