وَ اِنِّیۡ خِفۡتُ الۡمَوَالِیَ مِنۡ وَّرَآءِیۡ وَ کَانَتِ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرًا فَہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۙ﴿۵﴾

۵۔ اور میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے پس تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما۔

4۔5 وَلِيًّا سے مراد اولاد ہے۔ چنانچہ سورﮤ آل عمران آیت 38 میں ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے فرمایا: قَالَ رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ۔ پروردگار مجھے اپنی عنایت سے صالح اولاد عطا فرما۔

یَّرِثُنِیۡ : جو میرا وارث بنے۔ خِفۡتُ الۡمَوَالِیَ میں مَوَالِیَ سے مراد سب کے نزدیک چچا اور چچا زاد ہیں، جو اولاد نہ ہونے کی صورت میں وارث بنتے ہیں۔ جن کے وارث بننے کا حضرت زکریا علیہ السلام کو خوف تھا۔ ظاہر ہے یہ خوف نبوت کے وارث بننے کا نہ تھا، بلکہ نا اہل لوگوں کے وارث بننے کا خوف تھا۔ نا اہل لوگ نبوت کے وارث نہیں بن سکتے۔ اس سے ثابت ہوا کہ انبیاء علیہ السلام کے متروکات کے بھی وارث ہوتے ہیں۔ اس سے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا موقف قرآن کے مطابق ثابت ہوتا ہے اور مقابلے میں پیش کی جانے والی روایت قرآن کی صراحت کے خلاف جاتی ہے۔