آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ مریم

یہ سورۃ مبارکہ مکی ہے اور اس کی آیات کی تعداد ۹۸ ہے۔ اس سورۃ کا نام مریم (س) اس لیے رکھا گیا کہ اس میں حضرت مریم (س) کے حالات کا ذکر ہے۔ اس کا نام سورۃ کھیعص بھی مذکور ہے۔

محمد بن اسحاق نے اپنی کتاب السیرۃ میں ام سلمہ سے اور احمد بن حنبل نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ ہجرت حبشہ میں جناب جعفر طیارؓ نے اس سورۃ کی ابتدائی چند آیات بادشاہ حبشہ نجاشی کو سنائیں تو وہ بہت متاثر ہوئے۔ اس سورۃ مبارکہ کے مضامین میں انبیاء علیہم السلام کا ذکر ہے جو اس سورۃ مبارکہ کے مکی ہونے کے ساتھ مناسب ہے کہ منکرین رسالت کو یہ بتانا مقصود ہو کہ خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گذشتہ انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور سلسلۂ انبیاء آدم، نوح، ابراہیم علیہم السلام کی نسل میں موجود رہا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

کٓہٰیٰعٓصٓ ۟﴿ۚ۱﴾

۱۔ کاف ، ہا، یا، عین، صاد۔

تفسیر آیات

۱۔ کٓہٰیٰعٓصٓ: حروف مقطعات کے بارے میں سورۃ بقرۃ کی ابتدا میں ہم نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ حروف رموز و اسرار ہیں۔ جن پر عام بشر کو مطلع کرنا مقصود نہیں ہے تاہم سورہ مریم کے شروع میں مذکورہ حروف مقطعات کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے جس کی بنا پر اس پر ہم قدرے روشنی ڈالیں گے۔

بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی کے اوائل کے حروف کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ معانی الاخبار میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

کٓہٰیٰعٓصٓ یعنی: انا الکافی الھادی الولی العالم الصادق الوعد ۔۔۔۔۔ ( معانی الاخبار صفحہ ۲۲)

یعنی میں ہی کافی، ہدایت دہندہ، کارساز، عالم اور وعدے کا سچا ہوں۔

حدیث کا اشارہ اس طرف ہے کہ ک سے کافی ، ھاء سے ھادی ، یاء سے ولی ، عین سے عالم ، صاد سے صادق ہے۔

شیعہ سنی مصادر میں یہ بات کثرت سے روایت میں آئی ہے کہ مولائے مؤحدین حضرت علی علیہ السلام اپنی دعاؤں میں خاص کر دشمن کے ساتھ مقابلے کے وقت یا کٓہٰیٰعٓصٓ کہ کر پکارتے تھے۔ ( نصر بن مزاحم متوفی ۲۱۲۔ واقعۃ صفین۔ مستدرک الوسائل ۱۱:۱۰۵ باب استجابۃ الدعاء ، کنز العمال حدیث: ۴۹۹۹۔۵۰۵۷، تفسیر طبری ۱۶ ذیل آیہ) نیز دعاؤں میں بھی کثرت سے کٓہٰیٰعٓصٓ کا ذکر ملتا ہے۔ (شیخ طوسی متوفی ۴۶۰ھ مصباح المتھجد ص ۱۴۵۔ علی بن طاؤس متوفی ۶۶۴ ھالاقبال ص ۳۲۴۔۴۲۵، ۳۴۳، مہج الدعوات ص ۲۴۴۔ ۳۱۵۔ کفعمی البلد الامین ص ۲۴۰۔ ۲۵۴)

ان سب روایات سے اس بات پر کافی روشنی پڑتی ہے کہ ان حروف کا تعلق اسمائے حسنی سے ہے۔

بعض حروف مقطعات ایک مکمل آیت اور بعض دیگر حروف کے مکمل آیت نہ ہونے سے بھی یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان حروف میں مطالب و معانی مضمر ہیں مثلا الٓـمّٓ ایک آیت ہے۔ جب کہ الٓـمّٓرٰ ایک آیت نہیں ہے۔

سورۃ شوریٰ میں حٰمٓ عٓسٓقٓ دو آیتیں ہیں جب کہ سورہ مریم میں کٓہٰیٰعٓصٓ ایک آیت ہے اور دونوں پانچ پانچ حروف پر مشتمل ہیں۔


آیت 1