الَّذِیۡنَ کَانَتۡ اَعۡیُنُہُمۡ فِیۡ غِطَـآءٍ عَنۡ ذِکۡرِیۡ وَ کَانُوۡا لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ سَمۡعًا﴿۱۰۱﴾٪

۱۰۱۔ جن کی نگاہیں ہماری یاد سے پردے میں پڑی ہوئی تھیں اور وہ کچھ سن بھی نہیں سکتے تھے۔

101۔ جن کا عقل و شعور غفلت و جہالت کے پردے میں ہے، وہ حرف حق کو سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے کیونکہ وہ حق سے کراہت اور نفرت کرتے ہیں اور ان کا باطل سے مانوس ذہن حق کو دیکھ کر وحشت زدہ ہو جاتا ہے۔

اَفَحَسِبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا عِبَادِیۡ مِنۡ دُوۡنِیۡۤ اَوۡلِیَآءَ ؕ اِنَّـاۤ اَعۡتَدۡنَا جَہَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ نُزُلًا﴿۱۰۲﴾

۱۰۲۔ کیا کافر یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو سرپرست بنائیں گے؟ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے مہمان سرا بنا کر تیار رکھا ہے۔

102۔ اللہ کی جگہ مِنۡ دُوۡنِیۡۤ بندوں کو سرپرست بنا لینا شرک ہے۔ یعنی جہاں اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت ہونی چاہیے، وہاں بندوں کی پرستش ہو جائے تو یہ شرک ہے۔ عِبَادِیۡ (میرے بندوں) سے مراد فرشتے، جن اور نیک انسان ہو سکتے ہیں، جن کی یہ مشرکین پوجا کرتے ہیں۔

قُلۡ ہَلۡ نُنَبِّئُکُمۡ بِالۡاَخۡسَرِیۡنَ اَعۡمَالًا﴿۱۰۳﴾ؕ

۱۰۳۔ کہدیجئے: کیا ہم تمہیں بتا دیں کہ اعمال کے اعتبار سے سب سے نامراد کون لوگ ہیں؟

103۔ 104 سب سے زیادہ ناقابل تلافی خسارے میں وہ لوگ ہیں جو مرکب ضلالت میں ہیں۔ مرکب ضلالت کا مطلب یہ ہے کہ ایک تو وہ خود ضلالت میں ہیں، دوسرا یہ کہ وہ اپنی اس ضلالت کو درست کام سمجھتے ہیں۔ اس قسم کی گمراہی زیادہ خطرناک اور ہدایت سے دور ہوتی ہے۔ یہ بالکل جہل مرکب کی طرح ہے کہ ایک شخص ایک مطلب کو نہیں جانتا اور اپنے اس نہ جاننے کو بھی نہیں جانتا۔ ایسا شخص جاننے کی کوشش کبھی نہیں کرے گا۔ اس لیے اس گمراہی کو سب سے زیادہ نامراد قرار دیا ہے۔ چاہے وہ خوارج کی طرح عبادات بجا لائیں، نواصب کی طرح کلام اللہ کی تلاوت کریں، اہل شرک کی طرح بے جان چیزوں کی پوجا کریں، یہ سب اعمال جن کو وہ کار خیر سمجھ کر بجا لا رہے ہیں، عبث ثابت ہوں گے اور ثواب و نجات کے لیے ان کی تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی۔

اَلَّذِیۡنَ ضَلَّ سَعۡیُہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ ہُمۡ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّہُمۡ یُحۡسِنُوۡنَ صُنۡعًا﴿۱۰۴﴾

۱۰۴۔ جن کی سعی دنیاوی زندگی میں لاحاصل رہی جب کہ وہ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ درست کام کر رہے ہیں۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمۡ وَ لِقَآئِہٖ فَحَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فَلَا نُقِیۡمُ لَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَزۡنًا﴿۱۰۵﴾

۱۰۵۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی نشانیوں اور اللہ کے حضور جانے کا انکار کیا جس سے ان کے اعمال برباد ہو گئے لہٰذا ہم قیامت کے دن ان کے (اعمال کے) لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔

ذٰلِکَ جَزَآؤُہُمۡ جَہَنَّمُ بِمَا کَفَرُوۡا وَ اتَّخَذُوۡۤا اٰیٰتِیۡ وَ رُسُلِیۡ ہُزُوًا﴿۱۰۶﴾

۱۰۶۔ ان کے کفر کرنے اور ہماری آیات اور رسولوں کا استہزا کرنے کی وجہ سے ان کی سزا یہی جہنم ہے۔

105۔ 106 جو لوگ بدترین خسارے میں ہیں، ان کے بارے میں بیان جاری ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو آیات الٰہی اور آخرت کا انکار کرتے تھے۔ آیات الہی میں آفاق و انفس کے ساتھ رسالت و نبوت بھی شامل ہیں جن کے یہ لوگ منکر ہیں۔ یعنی جو مطلوب تھا وہ کیا نہیں اور جو کیا وہ مطلوب نہ تھا۔ اس لیے حبط ہونا قدرتی بات ہے اور جب حبط ہو گا تو قدروں کے ترازو میں ان اعمال کا کوئی وزن نہ ہو گا۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَانَتۡ لَہُمۡ جَنّٰتُ الۡفِرۡدَوۡسِ نُزُلًا﴿۱۰۷﴾ۙ

۱۰۷۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں ان کی میزبانی کے لیے یقینا جنت الفردوس ہے ۔

107۔ جَنّٰتُ الۡفِرۡدَوۡسِ : فردوس ایسے باغ کو کہتے ہیں جس میں گھنے درخت ہوں اور غالب درخت انگور کے ہوں۔

خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا لَا یَبۡغُوۡنَ عَنۡہَا حِوَلًا﴿۱۰۸﴾

۱۰۸۔ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہاں سے کہیں اور جانا پسند نہیں کریں گے۔

10۔ کلمہ بشری استعمال میں اس لفظ کو کہتے ہیں جو کسی معنی پر دلالت کرے۔ اللہ تعالیٰ کے کلمات وہ ارادہ اور وہ تخلیق و ایجاد ہیں جو اپنے خالق اور موجد کی نشاندہی کریں، وہ فیوض ہیں جو ہمیشہ جاری رہتے ہیں: کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ ۔ فیض خدا، تخلیق خدا لامحدود ہے۔ ان لامحدود کلمات کا احاطہ کرنا کسی محدود کے بس میں نہیں ہے، خواہ وہ محدود کتنا ہی عظیم اور وسیع کیوں نہ ہو۔

قُلۡ لَّوۡ کَانَ الۡبَحۡرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیۡ لَنَفِدَ الۡبَحۡرُ قَبۡلَ اَنۡ تَنۡفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیۡ وَ لَوۡ جِئۡنَا بِمِثۡلِہٖ مَدَدًا﴿۱۰۹﴾

۱۰۹۔ کہدیجئے: میرے رب کے کلمات (لکھنے) کے لیے اگر سمندر روشنائی بن جائیں تو سمندر ختم ہو جائیں گے لیکن میرے رب کے کلمات ختم نہیں ہوں گے اگرچہ ہم اتنے ہی مزید (سمندر) سے کمک رسانی کریں۔

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا﴿۱۱۰﴾٪

۱۱۰۔ کہدیجئے: میں تم ہی جیسا ایک انسان ہوں مگر میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود تو بس ایک ہی ہے لہٰذا جو اپنے رب کے حضور جانے کا امیدوار ہے اسے چاہیے کہ وہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہ ٹھہرائے۔

110۔ کہ دیجیے: میں تم جیسا انسان ہوں مِّثۡلُکُمۡ ہوں۔ جسمانی طور پر تم جیسا ہوں، ظاہر بین لوگوں کے لیے تم جیسا ہوں، تمہاری طرح مادی وسائل کو استعمال میں لاتا ہوں، کھاتا اور پیتا ہوں، سوتا ہوں، ازدواج کرتا ہوں اور اولاد رکھتا ہوں۔ تم مجھے دیگر انسانوں کی طرح چلتے، اٹھتے، بیٹھتے اور بات کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہو۔ ایک نامرئی وجود نہیں ہوں لیکن یُوۡحٰۤی اِلَیَّ مجھ پر وحی ہوتی ہے۔ میرے جس وجود پر وحی ہوتی ہے وہ تم جیسا نہیں ہے۔ یعنی میرا دل تمہارے دل کی طرح نہیں ہے۔ میرا دل مخزن راز خدا ہے نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلۡبِکَ میری نگاہ بھی تمہاری نگاہوں کی طرح نہیں۔ مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَ مَا طَغٰی ۔ (نجم: 17)