آیات 4 - 6
 

قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ وَہَنَ الۡعَظۡمُ مِنِّیۡ وَ اشۡتَعَلَ الرَّاۡسُ شَیۡبًا وَّ لَمۡ اَکُنۡۢ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا﴿۴﴾

۴۔عرض کی: میرے رب! میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور بڑھاپے کی وجہ سے سر کے سفید بال چمکنے لگے ہیں اور اے میرے رب! میں تجھ سے مانگ کر کبھی ناکام نہیں رہا۔

وَ اِنِّیۡ خِفۡتُ الۡمَوَالِیَ مِنۡ وَّرَآءِیۡ وَ کَانَتِ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرًا فَہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۙ﴿۵﴾

۵۔ اور میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے پس تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما۔

یَّرِثُنِیۡ وَ یَرِثُ مِنۡ اٰلِ یَعۡقُوۡبَ ٭ۖ وَ اجۡعَلۡہُ رَبِّ رَضِیًّا﴿۶﴾

۶۔جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے اور میرے رب! اسے (اپنا) پسندیدہ بنا۔

تفسیر آیات

یہ بات آج سب کے لیے واضح ہے کہ بڑھاپا ہڈیوں کی کمزوری سے آتا ہے۔ بڑھاپے کی دوسری علامت بالوں کی سفیدی ہے۔ زکریا علیہ السلام اللہ کی بارگاہ میں اپنا مدعا پیش کرنے سے پہلے چند باتوں کو بطور تمہید پیش کرتے ہیں:

i۔ عمر ڈھل گئی، بڑھاپے میں آگیا ہوں۔ ہڈیوں کی کمزوری اور سر کے بالوں کی سفیدی اس کی علامات ہیں۔

ii۔ پروردگار تجھ کو پکار کے میں کبھی ناکام اور نامراد نہیں رہا ہوں۔ ظاہر ہے ایک نبی کی دعا رد نہ ہو گی اور جو دعا دل کی گہرائیوں سے نکلتی ہے وہ رد نہیں ہوتی۔

iii۔ اپنے رشتے داروں سے مجھے خوف لاحق ہے۔ یہ خوف اپنے بعد کا ہے: مِنۡ وَّرَآءِیۡ انبیاء علیہم السلام کو ہمیشہ اپنے بعد کا خوف لاحق رہا ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی موت کے موقع پر اپنی اولاد سے فرمایا:

اِذۡ قَالَ لِبَنِیۡہِ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ ۔۔۔۔ (۲ بقرہ:۱۳۳)

اس وقت انہوں نے اپنے بچوں سے کہا: میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے؟

سورہ مریم: ۵۹ میں متعدد انبیاء علیہم السلام کے ذکر کے بعد فرمایا:

فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَ اتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ ۔۔۔۔

پھر ان کے بعد ایسے ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشات کے پیچھے چل پڑے۔

نیز فرمایا:

وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ۔۔۔۔ (۳آل عمران:۱۴۴)

اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو بس رسول ہی ہیں، ان سے پہلے اور بھی رسول گزرچکے ہیں، بھلا اگر یہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟

الۡمَوَالِیَ رشتے دار سے مراد اولاد کے علاوہ باقی رشتے دار ہیں۔

انہم کانوا شرار بنی اسرائیل (جصاص)

موالی سے مراد بنی اسرائیل کے برے لوگ ہیں۔

اس سے یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام کو اولاد سے کوئی خوف نہ تھا۔ اولاد نہ ہونے کی صورت میں جو وارث بننے والے تھے ان سے خوف تھا۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی بنا پر اپنے بعد کے لیے فرمایا تھا:

انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا بعدی

iv۔ میری بیوی بانجھ ہے۔ اولاد کے لیے ظاہری وسائل کا فقدان ہے۔

ان تمہیدی عرائض کے بعد اصل مدعا پیش کرتے ہیں:

فَہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا مجھے اپنے پاس سے ایک ولی عنایت فرما۔ ولی سے ولد صلبی مراد ہے جیسا کہ سورہ آل عمران میں فرمایا:

ہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ۔ (۳ آل عمران:۳۸)

پروردگارا! مجھے اپنی عنایت سے صالح اولاد عطا کر،

یہاں ذریت کی جگہ ولی کا لفظ آگیا۔ لہٰذا ولی سے مراد صلبی اولاد ہے۔

وارث کے لیے دعا: حضرت زکریا علیہ السلام کی استدعا کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسے فرزند کے لیے دعا کر رہے ہیں جس کے نہ ہونے کی صورت میں غیر فرزند وارث بننے والے تھے۔

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام اپنی اولاد کے علاوہ دوسروں کے وارث ہونے پر رضامند نہ تھے بلکہ ان کے وارث بننے کا خوف لاحق تھا۔

اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ مسئلہ نبوت کی وراثت کا نہ تھا ورنہ نبوت کے کسی نا اہل کے پاس جانے کا خوف نہیں ہوتا۔ علم اور نہ تقویٰ کے غیر اہل کے پاس جانے کا خوف ہوتا ہے۔ لہٰذا حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنے لیے اولاد کی دعا اس لیے کی تاکہ وہ اس گھر کے وارث بن جائے۔ اس میں مالی وراثت بھی شامل ہے اور حقیقتاً وراثت مالی ہی ذہن میں آتی ہے۔ جیسے ثُمَّ اَوۡرَثۡنَا الۡکِتٰبَ الَّذِیۡنَ اصۡطَفَیۡنَا مِنۡ عِبَادِنَا (۵ ۳فاطر:۳۲ (ترجمہ) پھر ہم نے اس کتاب کا وارث انہیں بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے برگزیدہ کیا ہے) میں لفظ کتاب قرینہ بنتا ہے کہ غیر مالی وراثت مراد ہے۔

عبدالرزاق، قتادہ حسن سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

رحم اللہ اخی زکریا ما کان علیہ من وراثۃ مالہ حین قال:فَہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا۔ یَّرِثُنِیۡ وَ یَرِثُ مِنۡ اٰلِ یَعۡقُوۡبَ ۔۔۔ (تفسیر ابن جریر)

اللہ کی رحمت ہو میرے بھائی زکریا پر جنہوں نے اپنے مال کی وراثت کے بارے میں جب کہا: فَہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا۔یَّرِثُنِیۡ وَ یَرِثُ مِنۡ اٰلِ یَعۡقُوۡبَ ۔۔۔

ابن کثیر اپنی تفسیر میں اس روایت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

وھذہ مرسلات لا تعارض الصحاح

واضح رہے یہ اگرچہ مرسل ہیں مگر قرآن کے مطابق ہیں اور جو آپ کے نزدیک صحیح ہے وہ قرآن کے خلاف ہے۔

التحریر و التنویر ۱۶: ۱۱ میں لکھتے ہیں:

والظواھرتؤذن بان الانبیاء کانوا یورثون قال تعالی وَ وَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ ۔۔۔۔

ظاہری دلالتوں کا اس اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انبیاء کے وارث ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: سلیمان نے داؤد سے ارث لیا۔

ابن عطیہ اندلسی اپنی تفسیر المحرر الوجیز میں اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

والاکثر من المفسرین علی انہ اراد وراثۃ المال ۔

اکثر مفسرین کا موقف یہ ہے کہ اس سے مالی وراثت مراد ہے۔

ابن جریر طبری اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

یرثنی من بعد وفاتی مالی ویرث من آل یعقوب النبوۃ قال ابن عباس و مجاہد و قتادہ: خاف ان یرثوا مالہ وان ترکہ الکلالۃ فاشفق ان یرثہ غیر الولد ۔

میری وفات کے بعد میرے مال کا وارث بن جائے اور آل یعقوب سے نبوت کا۔ ابن عباس، مجاہد اور قتادہ نے کہا ہے کہ ان کو یہ خوف لاحق تھا کہیں اولاد کے علاوہ دوسرے لوگ وارث بن جائیں اور کلالہ کی نوبت آئے۔

الدر المنثور میں آیا ہے: ابن عباس مجاہد، عکرمہ اور ابو صالح نے کہا ہے کہ یَّرِثُنِیۡ سے مراد مالی وراثت ہے۔

اعتراض کیا جاتا ہے: یہ کہنا کہ انبیاء کے لیے شایان شان نہیں ہے کہ وہ مالی وراثت کے لیے اس قدر اہمیت کے قائل ہو جائیں۔

جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کے پاس گھر مال و دولت ہو اور اس گھر کو صحیح مصرف میں خرچ کرنے کے لیے صالح اولاد کی تمنا کریں۔ چنانچہ حضرت زکریا علیہ السلام کے بارے میں یہ بات ثابت ہے کہ آپؑ ہیکل بیت المقدس کے مسؤل تھے اور آپؑ کی زوجہ حضرت سلیمان کے خاندان کی ایک فرد تھیں تو عین ممکن ہے کہ اس خاندان کے پاس تحائف و نذورات اور وراثت کے ذریعے ایک معتدبہ دولت موجود ہو اور حضرت زکریا علیہ السلام اس دولت کے ذریعے انسانی خدمات انجام دے رہے ہوں اور اپنے بعد کے لیے غیر صالح مالی وارثوں سے خائف ہوں۔

اس سلسلے میں امام شمس الدین سرخسی کا استنباط قابل توجہ ہے۔ آپ اپنی معروف فقہی کتاب المبسوط جلد۱۲ صفحہ ۳۶ باب الوقف طبع دار الکتب العلمیہ بیروت میں لکھتے ہیں:

واستدل بعض مشایخنا رحمہم ﷲ تعالیٰ بقولہ علیہ الصلوۃ والسلام: انا معاشر الانبیاء لانورث ما ترکناہ صدقۃ۔ فقالوا معناہ: ما ترکناہ صدقۃ لا یورث ذلک، و لیس المراد ان اموال الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام لاتورث وقد قال اللہ تعالیٰ: وَوَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ وقال اللّٰہ تعالیٰ: فَہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا۔ یَّرِثُنِیۡ وَ یَرِثُ مِنۡ اٰلِ یَعۡقُوۡبَ۔ فحاشا ان یتکلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بخلاف المنزل، فعلی ھذا التاویل فی الحدیث بیان ان لزوم الوقف من الانبیاء علیہم الصلوۃ و السلام خاصۃ بناء علی ان الوعد منہم کالعہد من غیرہم ۔

ہمارے بعض اساتذہ نے وقف کے ناقابل تنسیخ ہونے پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے: انا معاشر الانبیاء لانورث ما ترکناہ صدقۃ وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو مال بعنوان صدقہ (وقف) ہم نے چھوڑا ہے اس کا ہم سے کوئی وارث نہیں ہوتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے اموال کے وارث نہیں ہوتے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ وَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ نیز فرمایا: فَہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا۔ یَّرِثُنِیۡ وَ یَرِثُ مِنۡ اٰلِ یَعۡقُوۡبَ ۔ پس ممکن نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کے خلاف بات کریں۔ حدیث کی اس توجیہ سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی طرف سے وقف کا ناقابل تنسیخ ہونا ایک خصوصی بات ہے کیونکہ انبیاء کے ’’وعدے‘‘ دوسرے لوگوں کے ’’معاہدے‘‘ کی طرح ہیں۔

چنانچہ حضرت فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیہا نے اس آیت سے فدک کی وراثت پر استدلال فرمایا۔ تفصیل کے ملاحظہ ہو سورۃ نمل آیت ۱۶۔ وَ وَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ اور خطبہ فدک کا ہمارا ترجمہ۔

واضح رہے وقف کا لفظ جدید اصطلاح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں لفظ وقف کی جگہ نحلۃ ھبۃ اور صدقۃ کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔ چنانچہ احادیث اور تاریخ میں صدقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ بہت ملتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ قدرت الٰہی پر خالص عقیدہ رکھنے والے ظاہری علل و اسباب پر انحصار نہیں کرتے۔

۲۔ اولاد صالح کے لیے دعا کرنا انبیاء علیہم السلام کی سیرت ہے۔

۳۔ انبیاء علیہم السلام اپنے بعد کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔


آیات 4 - 6