قَالُوۡا وَ اَقۡبَلُوۡا عَلَیۡہِمۡ مَّا ذَا تَفۡقِدُوۡنَ﴿۷۱﴾

۷۱۔ وہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور بولے: تمہاری کیا چیز کھو گئی ہے؟

قَالُوۡا نَفۡقِدُ صُوَاعَ الۡمَلِکِ وَ لِمَنۡ جَآءَ بِہٖ حِمۡلُ بَعِیۡرٍ وَّ اَنَا بِہٖ زَعِیۡمٌ﴿۷۲﴾

۷۲۔ کہنے لگے: بادشاہ کا پیالہ کھو گیا ہے اور جو اسے پیش کر دے اس کے لیے ایک بار شتر (انعام) ہے اور میں اس کا ضامن ہوں۔

قَالُوۡا تَاللّٰہِ لَقَدۡ عَلِمۡتُمۡ مَّا جِئۡنَا لِنُفۡسِدَ فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا کُنَّا سٰرِقِیۡنَ﴿۷۳﴾

۷۳۔ قافلے والوں نے کہا : اللہ کی قسم تم لوگوں کو بھی علم ہے کہ ہم اس سرزمین میں فساد کرنے نہیں آئے اور نہ ہی ہم چور ہیں۔

73۔ قافلہ والوں کے لب و لہجے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے گرد پیش کے لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تھا کہ یہ لوگ کس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ قافلہ والے ان کی اس شناخت پر تکیہ کر کے بات کر رہے ہیں کہ تمہیں خود علم ہے کہ ہم زمین مصر میں فساد کرنے نہیں آئے۔

قَالُوۡا فَمَا جَزَآؤُہٗۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ کٰذِبِیۡنَ﴿۷۴﴾

۷۴۔ انہوں نے کہا: اگر تم جھوٹے ثابت ہوئے تو اس کی سزا کیا ہونی چاہیے؟

قَالُوۡا جَزَآؤُہٗ مَنۡ وُّجِدَ فِیۡ رَحۡلِہٖ فَہُوَ جَزَآؤُہٗ ؕ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الظّٰلِمِیۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔ کہنے لگے: اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے سامان میں (مسروقہ مال) پایا جائے وہی اس کی سزا میں رکھ لیا جائے، ہم تو ظلم کرنے والوں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔

75۔ پہلے سے طے شدہ بہانے کے تحت پوچھا جاتا ہے کہ اگر تم چور ثابت ہوئے تو اس کی کیا سزا ہو گی؟ حضرت یوسف علیہ السلام کو علم تھا کہ اس کا کیا جواب آنے والا ہے۔ کیونکہ شریعت ابراہیمی میں چور کی سزا یہ تھی کہ صاحب مال چور کو اپنا غلام بنا لے۔

روایت میں آیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کی بہترین مہمان نوازی کی اور کھانے کے لیے دستر خوان کو یوں ترتیب دیا کہ دو دو بھائی مل کر کھائیں۔ بنیامین تنہا رہ گئے جس پر وہ یوسف علیہ السلام کو یاد کر کے روئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کو اپنے دستر خوان پر جگہ دی اور کہا: میں تیرا بھائی ہوں۔ اس طرح دو دو بھائیوں کے لیے ایک ایک کمرہ تیار کیا۔ بنیامین پھر تنہا رہ گئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے بنیامین کو اپنے کمرے میں جگہ دی اور تخلیہ ہونے پر پورا راز کھول دیا اور کہا: میں تیرا بھائی ہوں۔

فَبَدَاَ بِاَوۡعِیَتِہِمۡ قَبۡلَ وِعَآءِ اَخِیۡہِ ثُمَّ اسۡتَخۡرَجَہَا مِنۡ وِّعَآءِ اَخِیۡہِ ؕ کَذٰلِکَ کِدۡنَا لِیُوۡسُفَ ؕ مَا کَانَ لِیَاۡخُذَ اَخَاہُ فِیۡ دِیۡنِ الۡمَلِکِ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ؕ نَرۡفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنۡ نَّشَآءُ ؕ وَ فَوۡقَ کُلِّ ذِیۡ عِلۡمٍ عَلِیۡمٌ﴿۷۶﴾

۷۶۔ پھر یوسف نے اپنے بھائی کے تھیلے سے پہلے ان کے تھیلوں کو (دیکھنا) شروع کیا پھر اسے اپنے بھائی کے تھیلے سے نکالا، اس طرح ہم نے یوسف کے لیے تدبیر کی ورنہ وہ شاہی قانون کے تحت اپنے بھائی کو نہیں لے سکتے تھے مگر یہ کہ اللہ کی مشیت ہو، جس کے ہم چاہتے ہیں درجات بلند کرتے ہیں اور ہر صاحب علم سے بالاتر ایک بہت بڑی دانا ذات ہے۔

76۔ تدبیر پر نہایت ہوشیاری سے عمل کیا جا رہا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو علم ہے کہ پیالہ اپنے بھائی کے تھیلے میں ہے، مگر تلاشی کی ابتدا دوسرے بھائیوں کے تھیلوں سے کرتے ہیں تاکہ کسی سوچی سمجھی تدبیر کا کہیں شائبہ نہ ہو جائے۔ اس تدبیر کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھنے کا اور کوئی بہانہ نہ تھا۔ کیونکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے درست ہی نہ تھا کہ وہ شاہی قانون کے مطابق عمل کریں۔ وہ پیغمبر ہیں، الہٰی قانون پر ہی عمل کریں گے۔ اگرچہ یہاں بنیامین حقیقتاً چور نہیں ہیں، لہٰذا سزا بھی حقیقی نہیں تھی۔ تاہم ظاہری طور پر بھی ایک رسول کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ الٰہی قانون کو چھوڑ کر شاہی قانون پر عمل کرے۔ رہا یہ سوال کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے حکومت میں داخل ہوتے ہوئے شاہی قانون کس طرح نافذ تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قوانین کا نفاذ اور تبدیلی نظام ہمیشہ تدریجی ہوا کرتی ہے۔ ابتدا میں رسول اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے بھی ممکن نہ تھا کہ بہ یک جنبش قلم تمام جاہلی قوانین ختم کر کے اسلامی قوانین نافذ کریں۔

قَالُوۡۤا اِنۡ یَّسۡرِقۡ فَقَدۡ سَرَقَ اَخٌ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ ۚ فَاَسَرَّہَا یُوۡسُفُ فِیۡ نَفۡسِہٖ وَ لَمۡ یُبۡدِہَا لَہُمۡ ۚ قَالَ اَنۡتُمۡ شَرٌّ مَّکَانًا ۚ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا تَصِفُوۡنَ﴿۷۷﴾

۷۷۔(برادران یوسف نے) کہا: اگر اس نے چوری کی ہے (تو نئی بات نہیں) اس کے بھائی (یوسف)نے بھی تو پہلے چوری کی تھی، پس یوسف نے اس بات کو دل میں سہ لیا اور اسے ان پر ظاہر نہ کیا (البتہ اتنا ضرور) کہا: تم لوگ برے ہو (نہ کہ ہم دونوں) اور جو بات تم بیان کر رہے ہو اسے اللہ بہتر جانتا ہے۔

77۔ ہنوز ان کے دلوں میں یوسف علیہ السلام اور بنیامین کے خلاف حسد کی آگ بجھی نہیں تھی۔ لہٰذا پہلے تو کہ دیا: ہم اولاد یعقوب چور نہیں ہیں۔ جب پیمانہ بنیامین کے تھیلے سے نکلا تو بنیامین اور یوسف علیہ السلام کو اپنے سے الگ شمار کیا اور کہا اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی۔

قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَا الۡعَزِیۡزُ اِنَّ لَہٗۤ اَبًا شَیۡخًا کَبِیۡرًا فَخُذۡ اَحَدَنَا مَکَانَہٗ ۚ اِنَّا نَرٰىکَ مِنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۷۸﴾

۷۸۔ وہ کہنے لگے:اے عزیز ! اس کا باپ بہت سن رسیدہ ہو چکا ہے پس آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیں ہمیں آپ نیکی کرنے والے نظر آتے ہیں۔

78۔ یہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو عزیز کہا گیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام مصر میں ایک ایسے منصب پر فائز تھے جسے مصری اصطلاح میں عزیز کہتے تھے جو تقریبا سرکار کے قریب المعنی ہے۔ ان آیات میں ایک جگہ الملک کا ذکر آیا ہے اور یوسف علیہ السلام کے لیے عزیز کہا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف الملک بادشاہ تو نہیں تھے، اس کے بعد کا منصب حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس تھا جسے عزیز کہتے تھے۔

قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ اَنۡ نَّاۡخُذَ اِلَّا مَنۡ وَّجَدۡنَا مَتَاعَنَا عِنۡدَہٗۤ ۙ اِنَّاۤ اِذًا لَّظٰلِمُوۡنَ﴿٪۷۹﴾

۷۹۔کہا : پناہ بخدا! جس کے ہاں سے ہمارا سامان ہمیں ملا ہے اس کے علاوہ ہم کسی اور کو پکڑیں؟ اگر ہم ایسا کریں تو زیادتی کرنے والوں میں ہوں گے۔

79۔ حضرت یوسف علیہ السلام بنیامین کو چور نہیں کہتے، بلکہ یہ تعبیر اختیار کرتے ہیں: جس کے ہاں سے ہمارا سامان ملا ہے، اسے چھوڑ کر کسی اور کو پکڑنا ظلم ہے۔ اس عمل کو توریہ کہتے ہیں جو مصلحتاً امر واقع کو چھپانے اور صریحاً جھوٹ نہ بولنے سے عبارت ہے۔ مثلاً غیر مستحق آپ سے پیسے مانگے تو آپ توریۃً کہیں گے: میرا ہاتھ خالی ہے۔ اس سے سائل سمجھے گا کہ آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں، جب کہ آپ اپنے ہاتھ کا قصد کر رہے ہیں جو واقعاً اس وقت خالی ہے۔ ایسا کرنا عند الضرورۃ درست ہے۔ روایت ہے کہ یوسف علیہ السلام اپنی پھوپھی کے ہاں رہتے تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے ہاں بلانا چاہا تو انہوں نے یوسف علیہ السلام کی کمر میں ایک کمر بند باندھ دیا پھر چوری کا الزام دے کر اپنے ہاں روک لیا۔

فَلَمَّا اسۡتَیۡـَٔسُوۡا مِنۡہُ خَلَصُوۡا نَجِیًّا ؕ قَالَ کَبِیۡرُہُمۡ اَلَمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اَبَاکُمۡ قَدۡ اَخَذَ عَلَیۡکُمۡ مَّوۡثِقًا مِّنَ اللّٰہِ وَ مِنۡ قَبۡلُ مَا فَرَّطۡتُّمۡ فِیۡ یُوۡسُفَ ۚ فَلَنۡ اَبۡرَحَ الۡاَرۡضَ حَتّٰی یَاۡذَنَ لِیۡۤ اَبِیۡۤ اَوۡ یَحۡکُمَ اللّٰہُ لِیۡ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ الۡحٰکِمِیۡنَ﴿۸۰﴾

۸۰۔ پھر جب وہ اس سے مایوس ہو گئے تو الگ ہو کر مشورہ کرنے لگے، ان کے بڑے نے کہا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ تمہارے والد نے تم سے اللہ کا عہد لیا ہے اور اس سے پہلے بھی یوسف کے بارے میں تقصیر کر چکے ہو؟ لہٰذا میں تو اس سرزمین سے ہلنے والا نہیں ہوں جب تک میرے والد مجھے اجازت نہ دیں یا اللہ میرے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

80۔ اولاد یعقوب علیہ السلام میں بڑا بیٹا نسبتاً ذمہ دار معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے شروع میں بھی اسی نے کہا ہو کہ یوسف علیہ السلام کو قتل نہ کرو، اسے کنویں میں ڈال دو۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کو علم تھا کہ یوسف علیہ السلام زندہ ہیں بلکہ یہ بھی اشارہ دیا کہ یوسف علیہ السلام ، بنیامین اور بڑا بیٹا سب ایک ساتھ واپس آئیں گے۔