حسن تدبیر اور حسن ختام


وَ جَآءَ اِخۡوَۃُ یُوۡسُفَ فَدَخَلُوۡا عَلَیۡہِ فَعَرَفَہُمۡ وَ ہُمۡ لَہٗ مُنۡکِرُوۡنَ﴿۵۸﴾

۵۸۔ اور برادران یوسف (مصر) آئے اور یوسف کے ہاں حاضر ہوئے پس یوسف نے تو انہیں پہچان لیا اور وہ یوسف کو پہچان نہیں رہے تھے۔

58۔ واقعے میں چند کڑیاں مذکور نہیں ہیں جو قرائن سے ذہن میں آ جاتی ہیں۔ تعبیر خواب کے مطابق سات سال غلے کی فراوانی رہی۔ اس کے بعد قحط سالی شروع ہو گئی اور حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن تدبیر کی وجہ سے صرف مصر میں غلہ کی فراوانی تھی اور قریبی ہمسایہ لوگ غلہ خریدنے مصر آتے تھے۔ چنانچہ برادران یوسف بھی غلہ خریدنے مصر آگئے اور حضرت یوسف علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں پہچان لیا، لیکن وہ یوسف کو نہیں پہچان سکے۔ کیونکہ جسے وہ کنویں میں ڈال آئے تھے اس کے بارے میں یہ تصور نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ خَزَآئِنِ الۡاَرۡضِ کا مختار کل بن چکا ہے۔

وَ لَمَّا جَہَّزَہُمۡ بِجَہَازِہِمۡ قَالَ ائۡتُوۡنِیۡ بِاَخٍ لَّکُمۡ مِّنۡ اَبِیۡکُمۡ ۚ اَلَا تَرَوۡنَ اَنِّیۡۤ اُوۡفِی الۡکَیۡلَ وَ اَنَا خَیۡرُ الۡمُنۡزِلِیۡنَ﴿۵۹﴾

۵۹۔ اور جب یوسف ان کے لیے سامان تیار کر چکے تو کہنے لگے: (دوبارہ آؤ تو) باپ کی طرف سے اپنے ایک (سوتیلے) بھائی کو میرے پاس لانا، کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپتا ہوں اور بہترین مہمان نواز ہوں ؟

فَاِنۡ لَّمۡ تَاۡتُوۡنِیۡ بِہٖ فَلَا کَیۡلَ لَکُمۡ عِنۡدِیۡ وَ لَا تَقۡرَبُوۡنِ ﴿۶۰﴾

۶۰۔ پس اگر تم اس بھائی کو نہ لاؤ گے تو میرے پاس سے نہ تو تمہیں کوئی غلہ ملے گا اور نہ ہی تم میرے نزدیک آنا۔

60۔ ممکن ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کے ساتھ اس طرح بات چلائی ہو کہ بنیامین کا ذکر آئے۔

بنیامین کو اپنے پاس لانے کے لیے حضرت یوسف علیہ السلام نے کئی طریقے استعمال کیے۔ غلہ پورا دیا، بہترین مہمان نوازی کی، آئندہ غلہ نہ دینے کی دھمکی دی اور غلہ کی قیمت واپس کی۔

قَالُوۡا سَنُرَاوِدُ عَنۡہُ اَبَاہُ وَ اِنَّا لَفٰعِلُوۡنَ﴿۶۱﴾

۶۱۔ انہوں نے کہا: ہم اس کے والد سے اسے طلب کریں گے اور ہم ایسا کر کے رہیں گے۔

وَ قَالَ لِفِتۡیٰنِہِ اجۡعَلُوۡا بِضَاعَتَہُمۡ فِیۡ رِحَالِہِمۡ لَعَلَّہُمۡ یَعۡرِفُوۡنَہَاۤ اِذَا انۡقَلَبُوۡۤا اِلٰۤی اَہۡلِہِمۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ﴿۶۲﴾

۶۲۔ اور یوسف نے اپنے خدمتگاروں سے کہا: ان کی پونجی (جو غلے کی قیمت تھی) انہی کے سامان میں رکھ دو تاکہ جب وہ پلٹ کر اپنے اہل و عیال کی طرف جائیں تو اسے پہچان لیں، اس طرح ممکن ہے وہ واپس آجائیں۔

62۔ اس زمانے میں معاملات مال کے بدلے مال کی بنیاد پر ہوتے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کا مال غلّے کے ساتھ واپس کر دیا۔

فَلَمَّا رَجَعُوۡۤا اِلٰۤی اَبِیۡہِمۡ قَالُوۡا یٰۤاَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الۡکَیۡلُ فَاَرۡسِلۡ مَعَنَاۤ اَخَانَا نَکۡتَلۡ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ﴿۶۳﴾

۶۳۔ پھر جب وہ اپنے والد کے پاس واپس گئے تو کہنے لگے: اے ہمارے ابا! ہمارے لیے غلے کی بندش ہو گئی لہٰذا آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تاکہ ہم غلہ حاصل کریں اور بے شک ہم بھائی کی حفاظت کریں گے۔

قَالَ ہَلۡ اٰمَنُکُمۡ عَلَیۡہِ اِلَّا کَمَاۤ اَمِنۡتُکُمۡ عَلٰۤی اَخِیۡہِ مِنۡ قَبۡلُ ؕ فَاللّٰہُ خَیۡرٌ حٰفِظًا ۪ وَّ ہُوَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔ یعقوب بولے: کیا میں اس کے بارے میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس سے پہلے اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں کیا تھا ؟ اللہ بہترین محافظ ہے اور وہ سب سے بہترین رحم کرنے والا ہے۔

63۔ 64 سیاق آیت سے مفہوم ہوتا ہے کہ بیٹوں نے سب سے پہلے حضرت یعقوب کو آئندہ غلہ کی بندش کی خبر سنائی اور بنیامین کو آئندہ ان کے ہمراہ مصر بھیجنے پر اصرار کیا۔ حضرت یعقوب نے ان کو یاد دلایا کہ تم نے یوسف کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس سے تم پر اعتماد ختم ہوا ہے اگرچہ یوسف کا بہترین محافظ اللہ ہے لیکن تم نے اپنی بداعتمادی ظاہر کر دی ہے۔

وَ لَمَّا فَتَحُوۡا مَتَاعَہُمۡ وَجَدُوۡا بِضَاعَتَہُمۡ رُدَّتۡ اِلَیۡہِمۡ ؕ قَالُوۡا یٰۤاَبَانَا مَا نَبۡغِیۡ ؕ ہٰذِہٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتۡ اِلَیۡنَا ۚ وَ نَمِیۡرُ اَہۡلَنَا وَ نَحۡفَظُ اَخَانَا وَ نَزۡدَادُ کَیۡلَ بَعِیۡرٍ ؕ ذٰلِکَ کَیۡلٌ یَّسِیۡرٌ﴿۶۵﴾

۶۵۔اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا ان کی پونجی انہیں واپس کر دی گئی کہنے لگے:اے ہمارے ابا! ہمیں اور کیا چاہیے؟دیکھیے! ہماری یہ پونجی ہمیں واپس کر دی گئی ہے اور ہم اپنے اہل و عیال کے لیے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور ایک اونٹ کا بوجھ غلہ زیادہ لائیں گے اور وہ غلہ آسانی سے (حاصل) ہو جائے گا۔

65۔ جب دیکھا کہ یوسف علیہ السلام نے غلہ کی قیمت بھی واپس کی ہے تو یہ بات مزید باعث اطمینان ہو گئی کہ ایسے مہربان شخص کے پاس بنیامین کو لے کر جانے میں کوئی باک نہیں ہے۔ اس سے اولاد یعقوب کے مؤقف میں تقویت آ گئی اور انہوں نے اپنے مؤقف کی حمایت میں مزید چند تاکیدی باتوں کا اضافہ کیا۔ اول یہ کہ بنیامین کے بھیجنے سے اہل و عیال کے لیے غلہ مل جائے گا۔ دوم یہ کہ ایسے شخص کے پاس جانے میں ہمیں تحفظ ہے۔ سوم یہ کہ بنیامین کے جانے سے ایک بار شتر کا اضافہ ہو جائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام غلہ کی تقسیم ایک شتر کے حساب سے کرتے تھے اور راشننگ کا نظام نافذ تھا۔ چہارم یہ کہ بنیامین کے جانے سے اعتماد بحال ہو گا اور ان سب چیزوں کا حصول آسان ہو جائے گا۔

قَالَ لَنۡ اُرۡسِلَہٗ مَعَکُمۡ حَتّٰی تُؤۡتُوۡنِ مَوۡثِقًا مِّنَ اللّٰہِ لَتَاۡتُنَّنِیۡ بِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ یُّحَاطَ بِکُمۡ ۚ فَلَمَّاۤ اٰتَوۡہُ مَوۡثِقَہُمۡ قَالَ اللّٰہُ عَلٰی مَا نَقُوۡلُ وَکِیۡلٌ﴿۶۶﴾

۶۶۔ (یعقوب نے) کہا: میں اسے ہرگز تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کے ساتھ عہد نہ کرو کہ تم اسے میرے پاس ضرور واپس لاؤ گے مگر یہ کہ تم (کسی مشکل میں) گھیر لیے جاؤ پھر جب انہوں نے اپنا عہد دے دیا تو یعقوب نے کہا: ہم جو بات کر رہے ہیں اس پر اللہ ضامن ہے۔

66۔ یہ عہد و میثاق ان باتوں کے بارے میں ہے جو انسان کے دائرﮤ اختیار میں ہیں جیسا کہ ان لوگوں نے جان بوجھ کر یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا۔ اگر با امر مجبوری اس کی خلاف ورزی ہو گئی تو قابل درگزر ہو گا کیونکہ اس زمانے میں کنعان سے مصر کا سفر کرنا خطرے سے خالی نہ تھا اور سفر بھی دراز تھا۔ عہد و پیمان ملنے کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام نے اللہ پر توکل کا اظہار کیا۔ کیونکہ توکل کا مطلب اسباب و علل سے بے نیازی نہیں ہے بلکہ توکل کا مطلب یہ ہے کہ صرف اسباب و علل کافی نہیں ہیں بلکہ ان کے ماوراء ارادﮤ الہی درکار ہوتا ہے۔ وہی قابل بھروسہ ہے۔

وَ قَالَ یٰبَنِیَّ لَا تَدۡخُلُوۡا مِنۡۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّ ادۡخُلُوۡا مِنۡ اَبۡوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ ؕ وَ مَاۤ اُغۡنِیۡ عَنۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ ۚ وَ عَلَیۡہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُتَوَکِّلُوۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ اور یعقوب نے کہا: بیٹو! تم سب ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا اور میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے کچھ بھی کام نہیں آ سکتا، حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور بھروسا کرنے والوں کو اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔

67۔ ان ہدایات کے پیچھے کون سے عوامل اور مقاصد کارفرما تھے اس کی طرف آیت میں کوئی اشارہ نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ نظر بد سے بچنا مقصود ہو یا یہ کہ کسی حادثے کی صورت میں باپ (یعقوب) کو کچھ اور بیٹوں سے بچھڑنا نہ پڑے۔

وَ لَمَّا دَخَلُوۡا مِنۡ حَیۡثُ اَمَرَہُمۡ اَبُوۡہُمۡ ؕ مَا کَانَ یُغۡنِیۡ عَنۡہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ اِلَّا حَاجَۃً فِیۡ نَفۡسِ یَعۡقُوۡبَ قَضٰہَا ؕ وَ اِنَّہٗ لَذُوۡ عِلۡمٍ لِّمَا عَلَّمۡنٰہُ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿٪۶۸﴾

۶۸۔اور جب وہ داخل ہوئے جہاں سے ان کے والد نے انہیں حکم دیا تھا تو کوئی انہیں اللہ سے بچانے والا نہ تھا مگر یہ کہ یعقوب کے دل میں ایک خواہش تھی جسے انہوں نے پورا کر دیا اور یعقوب یقینا صاحب علم تھے اس لیے کہ ہم نے انہیں علم دیا تھا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

68۔ ممکن ہے خواہش جو پوری ہو گئی، یہ ہو کہ وہ خطرہ ٹل گیا جو ایک دروازے سے داخل ہونے کی صورت میں سب کو لاحق ہو سکتا تھا۔

وَ لَمَّا دَخَلُوۡا عَلٰی یُوۡسُفَ اٰوٰۤی اِلَیۡہِ اَخَاہُ قَالَ اِنِّیۡۤ اَنَا اَخُوۡکَ فَلَا تَبۡتَئِسۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۶۹﴾

۶۹۔ اور جب یہ لوگ یوسف کے ہاں داخل ہوئے تو یوسف نے اپنے بھائی کو اپنے پاس جگہ دی ۔ کہا : بے شک میں ہی تیرا بھائی ہوں پس ان لوگوں کے سلوک پر ملال نہ کرنا۔

فَلَمَّا جَہَّزَہُمۡ بِجَہَازِہِمۡ جَعَلَ السِّقَایَۃَ فِیۡ رَحۡلِ اَخِیۡہِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَیَّتُہَا الۡعِیۡرُ اِنَّکُمۡ لَسٰرِقُوۡنَ﴿۷۰﴾

۷۰۔ پھر جب (یوسف نے) ان کا سامان تیار کر لیا تو اپنے بھائی کے سامان میں پیالہ رکھ دیا پھر کسی پکارنے والے نے آواز دی : اے قافلے والو! تم چور ہو۔

70۔ اپنے بھائی کے سامان میں پیالہ رکھنا حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف سے ایک تدبیر و حیلہ تھا جو غالباً دونوں برادران نے مل کر بنایا تھا اور بنیامین وقتی خفت اٹھانے کے لیے تیار ہو گئے تھے۔

انہیں سارق کہنا چونکہ پہلے سے بنیامین کے ساتھ طے تھا اس لیے کوئی حرج نہیں ہے۔ ثانیاً یہ کہ پیالہ عمداً رکھنے کے راز سے یہ آواز دینے والا واقف ہی نہ ہو گا، لہٰذا ممکن ہے کہ آواز دینے والا ان کو فی الواقع چور گمان کرتا ہو۔

قَالُوۡا وَ اَقۡبَلُوۡا عَلَیۡہِمۡ مَّا ذَا تَفۡقِدُوۡنَ﴿۷۱﴾

۷۱۔ وہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور بولے: تمہاری کیا چیز کھو گئی ہے؟

قَالُوۡا نَفۡقِدُ صُوَاعَ الۡمَلِکِ وَ لِمَنۡ جَآءَ بِہٖ حِمۡلُ بَعِیۡرٍ وَّ اَنَا بِہٖ زَعِیۡمٌ﴿۷۲﴾

۷۲۔ کہنے لگے: بادشاہ کا پیالہ کھو گیا ہے اور جو اسے پیش کر دے اس کے لیے ایک بار شتر (انعام) ہے اور میں اس کا ضامن ہوں۔

قَالُوۡا تَاللّٰہِ لَقَدۡ عَلِمۡتُمۡ مَّا جِئۡنَا لِنُفۡسِدَ فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا کُنَّا سٰرِقِیۡنَ﴿۷۳﴾

۷۳۔ قافلے والوں نے کہا : اللہ کی قسم تم لوگوں کو بھی علم ہے کہ ہم اس سرزمین میں فساد کرنے نہیں آئے اور نہ ہی ہم چور ہیں۔

73۔ قافلہ والوں کے لب و لہجے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے گرد پیش کے لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تھا کہ یہ لوگ کس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ قافلہ والے ان کی اس شناخت پر تکیہ کر کے بات کر رہے ہیں کہ تمہیں خود علم ہے کہ ہم زمین مصر میں فساد کرنے نہیں آئے۔

قَالُوۡا فَمَا جَزَآؤُہٗۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ کٰذِبِیۡنَ﴿۷۴﴾

۷۴۔ انہوں نے کہا: اگر تم جھوٹے ثابت ہوئے تو اس کی سزا کیا ہونی چاہیے؟

قَالُوۡا جَزَآؤُہٗ مَنۡ وُّجِدَ فِیۡ رَحۡلِہٖ فَہُوَ جَزَآؤُہٗ ؕ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الظّٰلِمِیۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔ کہنے لگے: اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے سامان میں (مسروقہ مال) پایا جائے وہی اس کی سزا میں رکھ لیا جائے، ہم تو ظلم کرنے والوں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔

75۔ پہلے سے طے شدہ بہانے کے تحت پوچھا جاتا ہے کہ اگر تم چور ثابت ہوئے تو اس کی کیا سزا ہو گی؟ حضرت یوسف علیہ السلام کو علم تھا کہ اس کا کیا جواب آنے والا ہے۔ کیونکہ شریعت ابراہیمی میں چور کی سزا یہ تھی کہ صاحب مال چور کو اپنا غلام بنا لے۔

روایت میں آیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کی بہترین مہمان نوازی کی اور کھانے کے لیے دستر خوان کو یوں ترتیب دیا کہ دو دو بھائی مل کر کھائیں۔ بنیامین تنہا رہ گئے جس پر وہ یوسف علیہ السلام کو یاد کر کے روئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کو اپنے دستر خوان پر جگہ دی اور کہا: میں تیرا بھائی ہوں۔ اس طرح دو دو بھائیوں کے لیے ایک ایک کمرہ تیار کیا۔ بنیامین پھر تنہا رہ گئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے بنیامین کو اپنے کمرے میں جگہ دی اور تخلیہ ہونے پر پورا راز کھول دیا اور کہا: میں تیرا بھائی ہوں۔

فَبَدَاَ بِاَوۡعِیَتِہِمۡ قَبۡلَ وِعَآءِ اَخِیۡہِ ثُمَّ اسۡتَخۡرَجَہَا مِنۡ وِّعَآءِ اَخِیۡہِ ؕ کَذٰلِکَ کِدۡنَا لِیُوۡسُفَ ؕ مَا کَانَ لِیَاۡخُذَ اَخَاہُ فِیۡ دِیۡنِ الۡمَلِکِ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ؕ نَرۡفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنۡ نَّشَآءُ ؕ وَ فَوۡقَ کُلِّ ذِیۡ عِلۡمٍ عَلِیۡمٌ﴿۷۶﴾

۷۶۔ پھر یوسف نے اپنے بھائی کے تھیلے سے پہلے ان کے تھیلوں کو (دیکھنا) شروع کیا پھر اسے اپنے بھائی کے تھیلے سے نکالا، اس طرح ہم نے یوسف کے لیے تدبیر کی ورنہ وہ شاہی قانون کے تحت اپنے بھائی کو نہیں لے سکتے تھے مگر یہ کہ اللہ کی مشیت ہو، جس کے ہم چاہتے ہیں درجات بلند کرتے ہیں اور ہر صاحب علم سے بالاتر ایک بہت بڑی دانا ذات ہے۔

76۔ تدبیر پر نہایت ہوشیاری سے عمل کیا جا رہا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو علم ہے کہ پیالہ اپنے بھائی کے تھیلے میں ہے، مگر تلاشی کی ابتدا دوسرے بھائیوں کے تھیلوں سے کرتے ہیں تاکہ کسی سوچی سمجھی تدبیر کا کہیں شائبہ نہ ہو جائے۔ اس تدبیر کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھنے کا اور کوئی بہانہ نہ تھا۔ کیونکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے درست ہی نہ تھا کہ وہ شاہی قانون کے مطابق عمل کریں۔ وہ پیغمبر ہیں، الہٰی قانون پر ہی عمل کریں گے۔ اگرچہ یہاں بنیامین حقیقتاً چور نہیں ہیں، لہٰذا سزا بھی حقیقی نہیں تھی۔ تاہم ظاہری طور پر بھی ایک رسول کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ الٰہی قانون کو چھوڑ کر شاہی قانون پر عمل کرے۔ رہا یہ سوال کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے حکومت میں داخل ہوتے ہوئے شاہی قانون کس طرح نافذ تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قوانین کا نفاذ اور تبدیلی نظام ہمیشہ تدریجی ہوا کرتی ہے۔ ابتدا میں رسول اسلام ﷺ کے لیے بھی ممکن نہ تھا کہ بہ یک جنبش قلم تمام جاہلی قوانین ختم کر کے اسلامی قوانین نافذ کریں۔

قَالُوۡۤا اِنۡ یَّسۡرِقۡ فَقَدۡ سَرَقَ اَخٌ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ ۚ فَاَسَرَّہَا یُوۡسُفُ فِیۡ نَفۡسِہٖ وَ لَمۡ یُبۡدِہَا لَہُمۡ ۚ قَالَ اَنۡتُمۡ شَرٌّ مَّکَانًا ۚ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا تَصِفُوۡنَ﴿۷۷﴾

۷۷۔(برادران یوسف نے) کہا: اگر اس نے چوری کی ہے (تو نئی بات نہیں) اس کے بھائی (یوسف)نے بھی تو پہلے چوری کی تھی، پس یوسف نے اس بات کو دل میں سہ لیا اور اسے ان پر ظاہر نہ کیا (البتہ اتنا ضرور) کہا: تم لوگ برے ہو (نہ کہ ہم دونوں) اور جو بات تم بیان کر رہے ہو اسے اللہ بہتر جانتا ہے۔

77۔ ہنوز ان کے دلوں میں یوسف علیہ السلام اور بنیامین کے خلاف حسد کی آگ بجھی نہیں تھی۔ لہٰذا پہلے تو کہ دیا: ہم اولاد یعقوب چور نہیں ہیں۔ جب پیمانہ بنیامین کے تھیلے سے نکلا تو بنیامین اور یوسف علیہ السلام کو اپنے سے الگ شمار کیا اور کہا اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی۔

قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَا الۡعَزِیۡزُ اِنَّ لَہٗۤ اَبًا شَیۡخًا کَبِیۡرًا فَخُذۡ اَحَدَنَا مَکَانَہٗ ۚ اِنَّا نَرٰىکَ مِنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۷۸﴾

۷۸۔ وہ کہنے لگے:اے عزیز ! اس کا باپ بہت سن رسیدہ ہو چکا ہے پس آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیں ہمیں آپ نیکی کرنے والے نظر آتے ہیں۔

78۔ یہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو عزیز کہا گیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام مصر میں ایک ایسے منصب پر فائز تھے جسے مصری اصطلاح میں عزیز کہتے تھے جو تقریبا سرکار کے قریب المعنی ہے۔ ان آیات میں ایک جگہ الملک کا ذکر آیا ہے اور یوسف علیہ السلام کے لیے عزیز کہا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف الملک بادشاہ تو نہیں تھے، اس کے بعد کا منصب حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس تھا جسے عزیز کہتے تھے۔

قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ اَنۡ نَّاۡخُذَ اِلَّا مَنۡ وَّجَدۡنَا مَتَاعَنَا عِنۡدَہٗۤ ۙ اِنَّاۤ اِذًا لَّظٰلِمُوۡنَ﴿٪۷۹﴾

۷۹۔کہا : پناہ بخدا! جس کے ہاں سے ہمارا سامان ہمیں ملا ہے اس کے علاوہ ہم کسی اور کو پکڑیں؟ اگر ہم ایسا کریں تو زیادتی کرنے والوں میں ہوں گے۔

79۔ حضرت یوسف علیہ السلام بنیامین کو چور نہیں کہتے، بلکہ یہ تعبیر اختیار کرتے ہیں: جس کے ہاں سے ہمارا سامان ملا ہے، اسے چھوڑ کر کسی اور کو پکڑنا ظلم ہے۔ اس عمل کو توریہ کہتے ہیں جو مصلحتاً امر واقع کو چھپانے اور صریحاً جھوٹ نہ بولنے سے عبارت ہے۔ مثلاً غیر مستحق آپ سے پیسے مانگے تو آپ توریۃً کہیں گے: میرا ہاتھ خالی ہے۔ اس سے سائل سمجھے گا کہ آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں، جب کہ آپ اپنے ہاتھ کا قصد کر رہے ہیں جو واقعاً اس وقت خالی ہے۔ ایسا کرنا عند الضرورۃ درست ہے۔ روایت ہے کہ یوسف علیہ السلام اپنی پھوپھی کے ہاں رہتے تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے ہاں بلانا چاہا تو انہوں نے یوسف علیہ السلام کی کمر میں ایک کمر بند باندھ دیا پھر چوری کا الزام دے کر اپنے ہاں روک لیا۔

فَلَمَّا اسۡتَیۡـَٔسُوۡا مِنۡہُ خَلَصُوۡا نَجِیًّا ؕ قَالَ کَبِیۡرُہُمۡ اَلَمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اَبَاکُمۡ قَدۡ اَخَذَ عَلَیۡکُمۡ مَّوۡثِقًا مِّنَ اللّٰہِ وَ مِنۡ قَبۡلُ مَا فَرَّطۡتُّمۡ فِیۡ یُوۡسُفَ ۚ فَلَنۡ اَبۡرَحَ الۡاَرۡضَ حَتّٰی یَاۡذَنَ لِیۡۤ اَبِیۡۤ اَوۡ یَحۡکُمَ اللّٰہُ لِیۡ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ الۡحٰکِمِیۡنَ﴿۸۰﴾

۸۰۔ پھر جب وہ اس سے مایوس ہو گئے تو الگ ہو کر مشورہ کرنے لگے، ان کے بڑے نے کہا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ تمہارے والد نے تم سے اللہ کا عہد لیا ہے اور اس سے پہلے بھی یوسف کے بارے میں تقصیر کر چکے ہو؟ لہٰذا میں تو اس سرزمین سے ہلنے والا نہیں ہوں جب تک میرے والد مجھے اجازت نہ دیں یا اللہ میرے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

80۔ اولاد یعقوب علیہ السلام میں بڑا بیٹا نسبتاً ذمہ دار معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے شروع میں بھی اسی نے کہا ہو کہ یوسف علیہ السلام کو قتل نہ کرو، اسے کنویں میں ڈال دو۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کو علم تھا کہ یوسف علیہ السلام زندہ ہیں بلکہ یہ بھی اشارہ دیا کہ یوسف علیہ السلام ، بنیامین اور بڑا بیٹا سب ایک ساتھ واپس آئیں گے۔

اِرۡجِعُوۡۤا اِلٰۤی اَبِیۡکُمۡ فَقُوۡلُوۡا یٰۤاَبَانَاۤ اِنَّ ابۡنَکَ سَرَقَ ۚ وَ مَا شَہِدۡنَاۤ اِلَّا بِمَا عَلِمۡنَا وَ مَا کُنَّا لِلۡغَیۡبِ حٰفِظِیۡنَ﴿۸۱﴾

۸۱۔ تم اپنے والد کے پاس جاؤ اور ان سے کہو: اے ہمارے ابا جان! آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے اور ہمیں جو علم ہوا اس کی ہم نے گواہی دے دی ہے اور غیب کے ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔

وَ سۡـَٔلِ الۡقَرۡیَۃَ الَّتِیۡ کُنَّا فِیۡہَا وَ الۡعِیۡرَ الَّتِیۡۤ اَقۡبَلۡنَا فِیۡہَا ؕ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوۡنَ﴿۸۲﴾

۸۲۔ اور اس بستی (والوں) سے پوچھیے جس میں ہم ٹھہرے تھے اور اس قافلے سے پوچھیے جس میں ہم آئے ہیں اور (یقین جانیے) ہم بالکل سچے ہیں۔

قَالَ بَلۡ سَوَّلَتۡ لَکُمۡ اَنۡفُسُکُمۡ اَمۡرًا ؕ فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌ ؕ عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّاۡتِـیَنِیۡ بِہِمۡ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ﴿۸۳﴾

۸۳۔(یعقوب نے )کہا: بلکہ تم نے خود اپنی طرف سے ایک بات بنائی ہے پس بہترین صبر کروں گا امید ہے کہ اللہ ان سب کو میرے پاس لے آئے، یقینا وہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

83۔ اس مرتبہ جو واقعہ پیش آیا ہے، اگرچہ اسے ان لوگوں نے خود نہیں بنایا تھا، لیکن یہ واقعہ اس زیادتی کا نتیجہ تھا جو ان لوگوں نے یوسف علیہ السلام کے بارے میں کی تھی۔ اس لیے ان کو اس واقعہ کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ پھر حضرت یعقوب علیہ السلام کے لیے یہ بات بھی قابل قبول نہ تھی کہ بنیامین جیسا نیک سیرت فرزند چوری کا مرتکب ہو سکتا ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کے اس جملے سے ”امید ہے اللہ ان سب کو میرے پاس لے آئے“ معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام کو علم تھا کہ یوسف علیہ السلام زندہ ہیں، بلکہ یہ بھی اشارہ دیا کہ یوسف، علیہ السلام بنیامین اور بڑا لڑکا سب ایک ساتھ واپس آنے والے ہیں اور یوسف علیہ السلام کا خواب پورا ہونے والا ہے۔

وَ تَوَلّٰی عَنۡہُمۡ وَ قَالَ یٰۤاَسَفٰی عَلٰی یُوۡسُفَ وَ ابۡیَضَّتۡ عَیۡنٰہُ مِنَ الۡحُزۡنِ فَہُوَ کَظِیۡمٌ﴿۸۴﴾

۸۴۔ اور یعقوب نے ان سے منہ پھیر لیا اور کہا ہائے یوسف اور ان کی آنکھیں (روتے روتے) غم سے سفید پڑ گئیں اور وہ گھٹے جا رہے تھے۔

84۔ صبر جمیل کے باوجود یعقوب علیہ السلام کا نابینائی کی حد تک رونا بتاتا ہے کہ اظہارِ حزن اور گریہ کرنا صبر کے منافی نہیں ہے۔ بقول بعض اہل قلم: یہ اشک فشانی، کمالات نبوت کے ذرا بھی منافی نہیں ہے، جیسا کہ آج کل کے بعض نافہموں نے لکھ دیا ہے، بلکہ یہ مزید شفقت اور رقت قلب کی علامت ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام تو خیر جوان تھے، ہمارے حضور انور ﷺ تو اپنے فرزند ابراہیم کی وفات پر آنسوؤں کے ساتھ روئے ہیں، جو ابھی شیر خوار تھے۔(دریا بادی)

صبر کے منافی یہ ہے کہ اس فیصلہ کو پسند نہ کیا جائے اور جزع فزع اس لیے ہو کہ یہ فیصلہ کیوں ہوا۔

قَالُوۡا تَاللّٰہِ تَفۡتَؤُا تَذۡکُرُ یُوۡسُفَ حَتّٰی تَکُوۡنَ حَرَضًا اَوۡ تَکُوۡنَ مِنَ الۡہٰلِکِیۡنَ﴿۸۵﴾

۸۵۔ (بیٹوں نے ) کہا: قسم بخدا ! یوسف کو برابر یاد کرتے کرتے آپ جان بلب ہو جائیں گے یا جان دے دیں گے۔

قَالَ اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ وَ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۸۶﴾

۸۶۔ یعقوب نے کہا : میں اپنا اضطراب اور غم صرف اللہ کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور اللہ کی جانب سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

86۔ یہ شکوہ اگر کسی اور سے کروں تو بے صبری کہلائے۔ میں تو اس ذات کے سامنے اپنے دل کی حالت کھول کر بیان کرتا ہوں جس سے میری ساری امیدیں وابستہ ہیں۔ عبد معبود کی بارگاہ میں جب اپنا احوال واقعی بیان کرتا ہے تو عین بندگی ہوتی ہے، یہی باتیں اگر غیر خدا سے کی جائیں تو بے صبری ہوتی ہے۔ اسی لیے حضرت یعقوب علیہ السلام فرماتے ہیں: میں تو اپنے غم و اندوہ کا اظہار کسی اور سے نہیں صرف اپنے رب سے کرتا ہوں، جس سے میری ساری امیدیں وابستہ ہیں اور اس سے میں مایوس نہیں ہوں، اس علم کی وجہ سے جو تمہارے پاس نہیں میرے پاس ہے۔

یٰبَنِیَّ اذۡہَبُوۡا فَتَحَسَّسُوۡا مِنۡ یُّوۡسُفَ وَ اَخِیۡہِ وَ لَا تَایۡـَٔسُوۡا مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یَایۡـَٔسُ مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡکٰفِرُوۡنَ﴿۸۷﴾

۸۷۔ اے میرے بیٹو! جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کے فیض سے مایوس نہ ہونا کیونکہ اللہ کے فیض سے تو صرف کافر لوگ مایوس ہوتے ہیں۔

87۔حضرت یعقوب علیہ السلام ، حضرت یوسف علیہ السلام اور بنیامین کے یکجا موجود ہونے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور ساتھ یہ درس بھی دے رہے ہیں کہ مومن اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا۔ کیونکہ اللہ سے مایوس ہونے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اس کی قدرت و طاقت محدود ہے اور یہ کفر ہے۔

فَلَمَّا دَخَلُوۡا عَلَیۡہِ قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَا الۡعَزِیۡزُ مَسَّنَا وَ اَہۡلَنَا الضُّرُّ وَ جِئۡنَا بِبِضَاعَۃٍ مُّزۡجٰىۃٍ فَاَوۡفِ لَنَا الۡکَیۡلَ وَ تَصَدَّقۡ عَلَیۡنَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَجۡزِی الۡمُتَصَدِّقِیۡنَ﴿۸۸﴾

۸۸۔ پھر جب وہ یوسف کے ہاں داخل ہوئے تو کہنے لگے: اے عزیز ! ہم اور ہمارے اہل و عیال سخت تکلیف میں ہیں اور ہم نہایت ناچیز پونجی لے کر آئے ہیں پس آپ ہمیں پورا غلہ دیجئے اور ہمیں خیرات (بھی) دیجئے، اللہ خیرات دینے والوں کو یقینا اجر عطا کرنے والا ہے۔

قَالَ ہَلۡ عَلِمۡتُمۡ مَّا فَعَلۡتُمۡ بِیُوۡسُفَ وَ اَخِیۡہِ اِذۡ اَنۡتُمۡ جٰہِلُوۡنَ﴿۸۹﴾

۸۹۔یوسف نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ جب تم نادان تھے تو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا؟

89۔ اس قسم کا طرز خطاب ان لوگوں کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے جن کو ان کی غلط کاریوں کی سرزنش کرنا مقصود ہو۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ابتدائے کلام میں سرزنش کا لہجہ اختیار کیا لیکن معاً اس کی توجیہ بھی بیان فرمائی کہ یہ کام تم لوگوں نے نادانی میں کیا تھا۔

قَالُوۡۤا ءَاِنَّکَ لَاَنۡتَ یُوۡسُفُ ؕ قَالَ اَنَا یُوۡسُفُ وَ ہٰذَاۤ اَخِیۡ ۫ قَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡنَا ؕ اِنَّہٗ مَنۡ یَّـتَّقِ وَ یَصۡبِرۡ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۹۰﴾

۹۰۔ وہ کہنے لگے : کیا واقعی آپ یوسف ہیں ؟ کہا: میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے، اللہ نے ہم پر احسان کیا ہے، اگر کوئی تقویٰ اختیار کرے اور صبر کرے تو اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

90۔ بھائیوں نے جب یوسف علیہ السلام کو پہچان لیا تو ان کے ذہنوں میں اپنی بدسلوکی اور یوسف علیہ السلام کے حسن سلوک کا تصور گھومنا شروع ہوا ہو گا اور ان دونوں سلوکوں میں موجود نمایاں فرق نے ان کو مزید شرمندہ کیا ہو گا۔ اس جگہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان عوامل کا ذکر کیا جن کی وجہ سے ان کو کامیابی حاصل ہوئی اور وہ ہیں صبر اور تقویٰ۔ چنانچہ قرآن کی دیگر متعدد آیات میں صبر و تقویٰ کو مشکلات سے نکلنے کا ذریعہ بتایا ہے۔

قَالُوۡا تَاللّٰہِ لَقَدۡ اٰثَرَکَ اللّٰہُ عَلَیۡنَا وَ اِنۡ کُنَّا لَخٰطِئِیۡنَ﴿۹۱﴾

۹۱۔ انہوں نے کہا: قسم بخدا! اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی ہے اور ہم ہی خطاکار تھے۔

قَالَ لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ ؕ یَغۡفِرُ اللّٰہُ لَکُمۡ ۫ وَ ہُوَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ﴿۹۲﴾

۹۲۔ یوسف نے کہا: آج تم پر کوئی عتاب نہیں ہو گا، اللہ تمہیں معاف کر دے گا اور وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے

92۔ بھائیوں نے جرم کا اعتراف کیا تو صاحب فضیلت حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے فضل کا ثبوت فراہم کیا۔ چنانچہ اس اعتراف کے جواب میں فرمایا: لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ ۔ آج تم پر کوئی عتاب نہیں ہو گا۔ رسول اکرم ﷺ نے بھی فتح مکہ کے موقع پر اپنے جانی دشمنوں سے درگزر فرماتے ہوئے یہی جملہ دہرایا: لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ ۔

اِذۡہَبُوۡا بِقَمِیۡصِیۡ ہٰذَا فَاَلۡقُوۡہُ عَلٰی وَجۡہِ اَبِیۡ یَاۡتِ بَصِیۡرًا ۚ وَ اۡتُوۡنِیۡ بِاَہۡلِکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ﴿٪۹۳﴾

۹۳۔ یہ میرا کرتا لے جاؤ پھر اسے میرے والد کے چہرے پر ڈال دو تو ان کی بصارت لوٹ آئے گی اور تم اپنے تمام اہل و عیال کو میرے پاس لے آنا۔

93۔حضرت یوسف علیہ السلام جانتے تھے کہ بھائیوں نے خون آلود قمیص والد کے سامنے پیش کی تھی، جس نے والد کو غمگین کیا تھا، سو آج قمیص کے ذریعے ہی ان کو خوشخبری دینا چاہتے تھے۔ چنانچہ روایت میں آیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا : میری یہ قمیص وہی شخص میرے والد کے پاس لے جائے جس نے میری خون آلود قمیص والد کے سامنے پیش کی تھی تاکہ جس نے میرے والد کو غمگین کیا وہی انہیں خوشخبری بھی دے۔

وَ لَمَّا فَصَلَتِ الۡعِیۡرُ قَالَ اَبُوۡہُمۡ اِنِّیۡ لَاَجِدُ رِیۡحَ یُوۡسُفَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ تُفَنِّدُوۡنِ﴿۹۴﴾

۹۴۔ اور جب یہ قافلہ (مصر کی سرزمین سے) دور ہوا تو ان کے باپ نے کہا: اگر تم مجھے بہکا ہوا نہ سمجھو تو یقینا مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔

94۔ ممکن ہے یہ خوشبو حسی قوت شامہ سے نہیں، بلکہ مشام ماروائے حس سے درک کی ہو جو انبیاء کے لیے بعید نہیں ہے۔

قَالُوۡا تَاللّٰہِ اِنَّکَ لَفِیۡ ضَلٰلِکَ الۡقَدِیۡمِ ﴿۹۵﴾

۹۵۔ لوگوں نے کہا: قسم بخدا! آپ اپنے اسی پرانے خبط میں (مبتلا) ہیں۔

فَلَمَّاۤ اَنۡ جَآءَ الۡبَشِیۡرُ اَلۡقٰىہُ عَلٰی وَجۡہِہٖ فَارۡتَدَّ بَصِیۡرًا ۚ قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ لَّکُمۡ ۚۙ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۹۶﴾

۹۶۔ پھر جب بشارت دینے والا آیا تو اس نے یوسف کا کرتا یعقوب کے چہرے پر ڈال دیا تو وہ دفعتاً بینا ہو گئے، کہنے لگے: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے؟

96۔ بصارت یعقوب علیہ السلام کا عود کر آنا عام طبیعی دستور کے مطابق نہیں ہو سکتا، کیونکہ طبیعی طور پر علاج کے بغیر ممکن نہیں ہے اور یوسف علیہ السلام کا کرتا منہ پر ڈالا جانا آنکھوں کی بصارت کے لیے طبیعی علاج ہرگز نہیں ہے، نہ اس فرط مسرت سے بصارت واپس آ سکتی ہے، بلکہ یہ صرف اعجاز کی صورت ہے جس سے حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام آگاہ تھے۔

قَالُوۡا یٰۤاَبَانَا اسۡتَغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَاۤ اِنَّا کُنَّا خٰطِئِیۡنَ﴿۹۷﴾

۹۷۔ بیٹوں نے کہا: اے ہمارے ابا! ہمارے گناہوں کی مغفرت کے لیے دعا کیجیے، ہم ہی خطاکار تھے۔

97۔ اولاد یعقوب علیہ السلام خطا کار سہی، لیکن خاندان نبوت کے افراد ہیں اور ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے پڑپوتے ہیں۔ آداب بندگی سے واقف ہیں کہ اپنے گناہوں کی مغفرت کے لیے، رسول خدا، اپنے والد بزگوار کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اللہ سے طلب عفو کے لیے انہیں وسیلہ بناتے ہیں۔

قَالَ سَوۡفَ اَسۡتَغۡفِرُ لَکُمۡ رَبِّیۡ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ﴿۹۸﴾

۹۸۔ (یعقوب نے) کہا: عنقریب میں تمہارے لیے اپنے رب سے مغفرت کی دعا کروںگا، وہ یقینا بڑا بخشنے والا،مہربان ہے

98۔ حضرت یعقوب علیہ السلام بالفور دعا نہیں فرماتے، بلکہ عنقریب دعا کرنے کا وعدہ فرماتے ہیں۔

فَلَمَّا دَخَلُوۡا عَلٰی یُوۡسُفَ اٰوٰۤی اِلَیۡہِ اَبَوَیۡہِ وَ قَالَ ادۡخُلُوۡا مِصۡرَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ ﴿ؕ۹۹﴾

۹۹۔جب یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھایا اور کہا : اللہ نے چاہا تو امن کے ساتھ مصر میں داخل ہو جائیے۔

99۔ برسوں کی جدائی اور یوسف علیہ السلام پر ایک زندگی گریہ و زاری کے بعد یہ ملاقات کس قدر رقت آمیز ہوئی ہو گی۔ مصر میں داخل ہو جائیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے والد بزرگوار کے استقبال کے لیے مصر یا شہر کی حدود سے نکل آئے تھے۔اس طرح آویٰ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یوسف اپنے والدین کے گلے لپٹے۔ چنانچہ اس استقبال کا ذکر توریت میں بھی ملتا ہے۔

وَ رَفَعَ اَبَوَیۡہِ عَلَی الۡعَرۡشِ وَ خَرُّوۡا لَہٗ سُجَّدًا ۚ وَ قَالَ یٰۤاَبَتِ ہٰذَا تَاۡوِیۡلُ رُءۡیَایَ مِنۡ قَبۡلُ ۫ قَدۡ جَعَلَہَا رَبِّیۡ حَقًّا ؕ وَ قَدۡ اَحۡسَنَ بِیۡۤ اِذۡ اَخۡرَجَنِیۡ مِنَ السِّجۡنِ وَ جَآءَ بِکُمۡ مِّنَ الۡبَدۡوِ مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ نَّزَغَ الشَّیۡطٰنُ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَ اِخۡوَتِیۡ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَطِیۡفٌ لِّمَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ﴿۱۰۰﴾

۱۰۰۔ اور یوسف نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور وہ سب ان کے آگے سجدے میں گر پڑے اور یوسف نے کہا:اے ابا جان! یہی میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے دیکھا تھا، بتحقیق میرے رب نے اسے سچ کر دکھایا اور اس نے سچ مچ مجھ پر احسان کیا جب مجھے زندان سے نکالا بعد اس کے کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈالا آپ کو صحرا سے (یہاں) لے آیا، یقینا میرا رب جو چاہتا ہے اسے تدبیر خفی سے انجام دیتا ہے، یقینا وہی بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

100۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے والدین کو تخت پر بٹھایا۔ تخت سے مراد تخت حکومت لیا جائے تو اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ یوسف علیہ السلام مصر کے تخت نشین بادشاہ بن گئے تھے، لیکن ممکن ہے تخت شاہی نہ ہو، کیونکہ قرآن یوسف علیہ السلام کو عزیز کہتا ہے اور ساتھ بادشاہ کا بھی ذکر آتا ہے۔ تاریخ نے بھی مصری بادشاہوں کے سلسلے میں یوسف علیہ السلام کا ذکر نہیں کیا ہے۔

سجدے سے مراد ایک قسم کی تعظیم ہے، جو ذرا زمین کی طرف جھک کر بجا لائی جاتی تھی۔ یہ زمین پر پیشانی رکھنے والا سجدہ نہیں ہے۔

رَبِّ قَدۡ اٰتَیۡتَنِیۡ مِنَ الۡمُلۡکِ وَ عَلَّمۡتَنِیۡ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۟ اَنۡتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ تَوَفَّنِیۡ مُسۡلِمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ﴿۱۰۱﴾

۱۰۱۔ اے میرے رب ! تو نے مجھے اقتدار کا ایک حصہ عنایت فرمایا اور ہر بات کے انجام کا علم دیا، آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے! تو ہی دنیا میں بھی میرا سرپرست ہے اور آخرت میں بھی، مجھے (دنیا سے) مسلمان اٹھا لے اور نیک بندوں میں شامل فرما۔

101۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے رب کی بارگاہ میں یہ مناجات عین اس وقت کر رہے ہیں، جب ان کے بھائی سامنے موجود ہیں، جو کل ان کی جان کے دشمن تھے۔ آج یوسف علیہ السلام اپنی کامیابی پر فخر و مباہات کرنے کی بجائے اپنے رب کا شکر بجا لا رہے ہیں۔