آیت 80
 

فَلَمَّا اسۡتَیۡـَٔسُوۡا مِنۡہُ خَلَصُوۡا نَجِیًّا ؕ قَالَ کَبِیۡرُہُمۡ اَلَمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اَبَاکُمۡ قَدۡ اَخَذَ عَلَیۡکُمۡ مَّوۡثِقًا مِّنَ اللّٰہِ وَ مِنۡ قَبۡلُ مَا فَرَّطۡتُّمۡ فِیۡ یُوۡسُفَ ۚ فَلَنۡ اَبۡرَحَ الۡاَرۡضَ حَتّٰی یَاۡذَنَ لِیۡۤ اَبِیۡۤ اَوۡ یَحۡکُمَ اللّٰہُ لِیۡ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ الۡحٰکِمِیۡنَ﴿۸۰﴾

۸۰۔ پھر جب وہ اس سے مایوس ہو گئے تو الگ ہو کر مشورہ کرنے لگے، ان کے بڑے نے کہا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ تمہارے والد نے تم سے اللہ کا عہد لیا ہے اور اس سے پہلے بھی یوسف کے بارے میں تقصیر کر چکے ہو؟ لہٰذا میں تو اس سرزمین سے ہلنے والا نہیں ہوں جب تک میرے والد مجھے اجازت نہ دیں یا اللہ میرے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

تشریح کلمات

نَجِیًّا:

( ن ج و ) نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں۔ النجی کے معنی سرگوشی کرنے کے ہیں۔

فَرَّطۡتُّمۡ:

( ف ر ط ) الافراط حد سے زیادہ تجاوز کرنے کو کہتے ہیں اور التفریط کوتاہی اور تقصیر کے معنوں میں ہے۔ اسی سے افراط و تفریط ہے۔ یعنی زیادتی و کوتاہی، جسے اردو میں افراتفری کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالَ کَبِیۡرُہُمۡ: اولاد یعقوب میں بڑا بیٹا نسبتاً ذمے دار معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے شروع میں بھی اسی نے کہا ہو: یوسف کو قتل نہ کرو، اسے کنویں میں ڈال دو۔ کسی حد تک اس بڑے لڑکے میں اس جرم کا احساس بھی زندہ تھا جو یوسف علیہ السلام کے بارے میں یہ لوگ کر چکے تھے اور آج بنیامین کے بغیر والد کی خدمت میں جانے کے لیے بھی آمادہ نہیں ہے۔ اسی لیے قرآن صرف اسی کا قول ذکر فرماتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ ان لوگوں نے کل یوسف علیہ السلام کو پریشان کیا، اس کے نتیجے میں آج یہ خود پریشان ہیں۔


آیت 80