آیات 78 - 79
 

قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَا الۡعَزِیۡزُ اِنَّ لَہٗۤ اَبًا شَیۡخًا کَبِیۡرًا فَخُذۡ اَحَدَنَا مَکَانَہٗ ۚ اِنَّا نَرٰىکَ مِنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۷۸﴾

۷۸۔ وہ کہنے لگے:اے عزیز ! اس کا باپ بہت سن رسیدہ ہو چکا ہے پس آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیں ہمیں آپ نیکی کرنے والے نظر آتے ہیں۔

قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ اَنۡ نَّاۡخُذَ اِلَّا مَنۡ وَّجَدۡنَا مَتَاعَنَا عِنۡدَہٗۤ ۙ اِنَّاۤ اِذًا لَّظٰلِمُوۡنَ﴿٪۷۹﴾

۷۹۔کہا : پناہ بخدا! جس کے ہاں سے ہمارا سامان ہمیں ملا ہے اس کے علاوہ ہم کسی اور کو پکڑیں؟ اگر ہم ایسا کریں تو زیادتی کرنے والوں میں ہوں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ یٰۤاَیُّہَا الۡعَزِیۡزُ: یہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو عزیز کہا گیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام مصر میں ایک ایسے منصب پر فائز تھے جسے مصری اصطلاح میں عزیز کہتے تھے جو تقریباً ’’سرکار‘‘ کے قریب المعنی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام الملک (بادشاہ) تو نہیں تھے، اس کے بعد کا منصب حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس تھا جسے عزیز کہتے تھے۔

۲۔ فَخُذۡ اَحَدَنَا مَکَانَہٗ: اولاد یعقوب کو وہ عہد و میثاق یاد آتا ہے جو انہوں نے اپنے والد سے کیا ہے۔ لہٰذا وہ کسی دوسرے کو بنیامین کی جگہ رکھنے کی درخواست کرتے ہیں۔

۳۔ قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ اَنۡ نَّاۡخُذَ: حضرت یوسف علیہ السلام بنیامین کو چور نہیں کہتے بلکہ یہ تعبیر اختیار کرتے ہیں : جس کے ہاں سے ہمارا سامان ملا ہے اسے چھوڑ کر کسی اور کو پکڑنا ظلم ہے۔ اسے توریہ کہتے ہیں جو مصلحتاً امر واقع کو چھپانے اور صریحاً جھوٹ نہ بولنے سے عبارت ہے۔ مثلاً غیر مستحق آپ سے پیسے مانگے تو آپ توریہ کریں گے: میرا ہاتھ خالی ہے۔ اس سے سائل سمجھے گا آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں جب کہ آپ اپنے ہاتھ کا قصد کر رہے ہیں جو واقعاً اس وقت خالی ہے۔ ایسا کرنا ضرورت کے تحت درست ہے۔

اہم نکات

۱۔جن برادران نے حضرت یوسف علیہ السلام پر ظلم کیا تھا آج وہ خود گواہی دے رہے ہیں کہ آپؑ نے ہمارے ساتھ نیکی کی ہے: اِنَّا نَرٰىکَ مِنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ۔


آیات 78 - 79