فَلَمَّا اسۡتَیۡـَٔسُوۡا مِنۡہُ خَلَصُوۡا نَجِیًّا ؕ قَالَ کَبِیۡرُہُمۡ اَلَمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اَبَاکُمۡ قَدۡ اَخَذَ عَلَیۡکُمۡ مَّوۡثِقًا مِّنَ اللّٰہِ وَ مِنۡ قَبۡلُ مَا فَرَّطۡتُّمۡ فِیۡ یُوۡسُفَ ۚ فَلَنۡ اَبۡرَحَ الۡاَرۡضَ حَتّٰی یَاۡذَنَ لِیۡۤ اَبِیۡۤ اَوۡ یَحۡکُمَ اللّٰہُ لِیۡ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ الۡحٰکِمِیۡنَ﴿۸۰﴾

۸۰۔ پھر جب وہ اس سے مایوس ہو گئے تو الگ ہو کر مشورہ کرنے لگے، ان کے بڑے نے کہا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ تمہارے والد نے تم سے اللہ کا عہد لیا ہے اور اس سے پہلے بھی یوسف کے بارے میں تقصیر کر چکے ہو؟ لہٰذا میں تو اس سرزمین سے ہلنے والا نہیں ہوں جب تک میرے والد مجھے اجازت نہ دیں یا اللہ میرے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

80۔ اولاد یعقوب علیہ السلام میں بڑا بیٹا نسبتاً ذمہ دار معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے شروع میں بھی اسی نے کہا ہو کہ یوسف علیہ السلام کو قتل نہ کرو، اسے کنویں میں ڈال دو۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کو علم تھا کہ یوسف علیہ السلام زندہ ہیں بلکہ یہ بھی اشارہ دیا کہ یوسف علیہ السلام ، بنیامین اور بڑا بیٹا سب ایک ساتھ واپس آئیں گے۔