آیات 73 - 75
 

قَالُوۡا تَاللّٰہِ لَقَدۡ عَلِمۡتُمۡ مَّا جِئۡنَا لِنُفۡسِدَ فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا کُنَّا سٰرِقِیۡنَ﴿۷۳﴾

۷۳۔ قافلے والوں نے کہا : اللہ کی قسم تم لوگوں کو بھی علم ہے کہ ہم اس سرزمین میں فساد کرنے نہیں آئے اور نہ ہی ہم چور ہیں۔

قَالُوۡا فَمَا جَزَآؤُہٗۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ کٰذِبِیۡنَ﴿۷۴﴾

۷۴۔ انہوں نے کہا: اگر تم جھوٹے ثابت ہوئے تو اس کی سزا کیا ہونی چاہیے؟

قَالُوۡا جَزَآؤُہٗ مَنۡ وُّجِدَ فِیۡ رَحۡلِہٖ فَہُوَ جَزَآؤُہٗ ؕ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الظّٰلِمِیۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔ کہنے لگے: اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے سامان میں (مسروقہ مال) پایا جائے وہی اس کی سزا میں رکھ لیا جائے، ہم تو ظلم کرنے والوں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ لَقَدۡ عَلِمۡتُمۡ مَّا جِئۡنَا: قافلے والوں کے جواب کے لب و لہجے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے گرد و پیش کے لوگوں کو اس بات کا علم ہو گیا تھا کہ یہ لوگ کس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں چنانچہ قافلے والے اپنی اس شناخت پر تکیہ کر کے بات کر رہے ہیں کہ تمہیں خود علم ہے کہ ہم زمین مصر میں فساد کرنے نہیں آئے۔

۲۔ قَالُوۡا فَمَا جَزَآؤُہٗۤ: پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت پوچھا گیا کہ اگر تم جھوٹے ثابت ہوئے تو اس کی کیا سزا ہونی چاہیے؟

۳۔ جَزَآؤُہٗ مَنۡ وُّجِدَ فِیۡ رَحۡلِہٖ: حضرت یوسف علیہ السلام کو علم تھا کہ اس کا کیا جواب آنے والا ہے کیونکہ شریعت ابراہیمی میں چور کی سزا یہ تھی کہ صاحب مال چور کو اپنا غلام بنا لے۔


آیات 73 - 75