آیت 76
 

فَبَدَاَ بِاَوۡعِیَتِہِمۡ قَبۡلَ وِعَآءِ اَخِیۡہِ ثُمَّ اسۡتَخۡرَجَہَا مِنۡ وِّعَآءِ اَخِیۡہِ ؕ کَذٰلِکَ کِدۡنَا لِیُوۡسُفَ ؕ مَا کَانَ لِیَاۡخُذَ اَخَاہُ فِیۡ دِیۡنِ الۡمَلِکِ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ؕ نَرۡفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنۡ نَّشَآءُ ؕ وَ فَوۡقَ کُلِّ ذِیۡ عِلۡمٍ عَلِیۡمٌ﴿۷۶﴾

۷۶۔ پھر یوسف نے اپنے بھائی کے تھیلے سے پہلے ان کے تھیلوں کو (دیکھنا) شروع کیا پھر اسے اپنے بھائی کے تھیلے سے نکالا، اس طرح ہم نے یوسف کے لیے تدبیر کی ورنہ وہ شاہی قانون کے تحت اپنے بھائی کو نہیں لے سکتے تھے مگر یہ کہ اللہ کی مشیت ہو، جس کے ہم چاہتے ہیں درجات بلند کرتے ہیں اور ہر صاحب علم سے بالاتر ایک بہت بڑی دانا ذات ہے۔

تشریح کلمات

دِیۡنِ:

( د ی ن ) الدین بمعنی اطاعت و جزا کے بھی ہے اور بمعنی شریعت بھی آتا ہے۔ چنانچہ اس آیت میں دین بمعنی نظام اور قانون کے آیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہدین چند رسوم و عقائد کا نام نہیں ہے جیساکہ جاہلیت نو کا خیال ہے بلکہ دین قرآنی اصطلاح میں ایک نظام حیات کا نام ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَبَدَاَ بِاَوۡعِیَتِہِمۡ قَبۡلَ وِعَآءِ: تدبیر پر نہایت ہوشیاری سے عمل کیا جا رہا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو علم ہے کہ پیالہ اپنے بھائی کے تھیلے میں ہے مگر تلاشی کی ابتدا دوسرے بھائیوں کے تھیلوں سے کرتے ہیں تاکہ کسی سوچی سمجھی تدبیر کا کہیں شائبہ نہ ہو جائے۔

۲۔ کَذٰلِکَ کِدۡنَا لِیُوۡسُفَ: اس کید و تدبیر کو اللہ نے اپنی طرف نسبت دی ہے کہ ہم نے یہ تدبیر بنائی تھی۔ ممکن ہے یہ تدبیر وحی یا الہام کے ذریعے حضرت یوسف علیہ السلام کے ذہن میں ڈالی ہو۔ لفظ کید کا لغوی معنی حیلہ سازی ہے۔ یہ اور ’’مکر‘‘ کا لفظ جب بندوں کی طرف منسوب ہوتا ہے تو فریب اور دغا بازی مراد لی جاتی ہے اور جب اللہ کی طرف نسبت دی جاتی ہے تو حسن تدبیر مراد لی جاتی ہے۔

۳۔ مَا کَانَ لِیَاۡخُذَ اَخَاہُ: اس تدبیر کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس اپنے بھائی کو اپنے ساتھ رکھنے کا اور کوئی بہانہ نہ تھا کیونکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے درست ہی نہ تھا کہ وہ شاہی قانون کے مطابق عمل کریں۔ وہ پیغمبر ہیں الٰہی قانون پر ہی عمل کریں گے۔ اگرچہ یہاں بنیامین حقیقتاً چور نہیں ہے لہٰذا سزا بھی حقیقی نہیں تھی۔ تاہم ظاہری طور پر بھی ایک رسول کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ الٰہی قانون کو چھوڑ کر شاہی قانون پر عمل کرے۔

رہا یہ سوال کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا حکومت میں دخل ہوتے ہوئے شاہی قانون کس طرح نافذ تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قوانین کا نفاذ اور تبدیلی نظام ہمیشہ تدریجاً ہوا کرتا ہے۔ ابتدا میں رسول اسلامؐ کے لیے بھی ممکن نہ تھا کہ بہ یک جنبش قلم تمام جاہلی قوانین کو ختم کر کے اسلامی قوانین نافذ کریں۔

۴۔ وَ فَوۡقَ کُلِّ ذِیۡ عِلۡمٍ: ہر صاحب علم سے بالاتر زیادہ جاننے والا ہوتا ہے۔ علمی درجات کسی ایک حد پر نہیں رکتے۔ ہر عالم سے بالاتر ایک عالم ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ کی ـذات پر جا کر یہ سلسلہ رک جاتا ہے۔ قصۂ یوسف علیہ السلام میں یہی بات سامنے آرہی تھی کہ ان سبق آموز واقعات میں ہر ذی علم کو بالاتر علم رکھنے والے سے واسطہ پڑتا رہا ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی مشیت کے اجرا کے لیے بھی طبیعی اسباب استعمال کیے جاتے ہیں : کَذٰلِکَ کِدۡنَا لِیُوۡسُفَ ۔


آیت 76