قَالُوۡا سَنُرَاوِدُ عَنۡہُ اَبَاہُ وَ اِنَّا لَفٰعِلُوۡنَ﴿۶۱﴾

۶۱۔ انہوں نے کہا: ہم اس کے والد سے اسے طلب کریں گے اور ہم ایسا کر کے رہیں گے۔

وَ قَالَ لِفِتۡیٰنِہِ اجۡعَلُوۡا بِضَاعَتَہُمۡ فِیۡ رِحَالِہِمۡ لَعَلَّہُمۡ یَعۡرِفُوۡنَہَاۤ اِذَا انۡقَلَبُوۡۤا اِلٰۤی اَہۡلِہِمۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ﴿۶۲﴾

۶۲۔ اور یوسف نے اپنے خدمتگاروں سے کہا: ان کی پونجی (جو غلے کی قیمت تھی) انہی کے سامان میں رکھ دو تاکہ جب وہ پلٹ کر اپنے اہل و عیال کی طرف جائیں تو اسے پہچان لیں، اس طرح ممکن ہے وہ واپس آجائیں۔

62۔ اس زمانے میں معاملات مال کے بدلے مال کی بنیاد پر ہوتے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کا مال غلّے کے ساتھ واپس کر دیا۔

فَلَمَّا رَجَعُوۡۤا اِلٰۤی اَبِیۡہِمۡ قَالُوۡا یٰۤاَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الۡکَیۡلُ فَاَرۡسِلۡ مَعَنَاۤ اَخَانَا نَکۡتَلۡ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ﴿۶۳﴾

۶۳۔ پھر جب وہ اپنے والد کے پاس واپس گئے تو کہنے لگے: اے ہمارے ابا! ہمارے لیے غلے کی بندش ہو گئی لہٰذا آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تاکہ ہم غلہ حاصل کریں اور بے شک ہم بھائی کی حفاظت کریں گے۔

قَالَ ہَلۡ اٰمَنُکُمۡ عَلَیۡہِ اِلَّا کَمَاۤ اَمِنۡتُکُمۡ عَلٰۤی اَخِیۡہِ مِنۡ قَبۡلُ ؕ فَاللّٰہُ خَیۡرٌ حٰفِظًا ۪ وَّ ہُوَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔ یعقوب بولے: کیا میں اس کے بارے میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس سے پہلے اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں کیا تھا ؟ اللہ بہترین محافظ ہے اور وہ سب سے بہترین رحم کرنے والا ہے۔

63۔ 64 سیاق آیت سے مفہوم ہوتا ہے کہ بیٹوں نے سب سے پہلے حضرت یعقوب کو آئندہ غلہ کی بندش کی خبر سنائی اور بنیامین کو آئندہ ان کے ہمراہ مصر بھیجنے پر اصرار کیا۔ حضرت یعقوب نے ان کو یاد دلایا کہ تم نے یوسف کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس سے تم پر اعتماد ختم ہوا ہے اگرچہ یوسف کا بہترین محافظ اللہ ہے لیکن تم نے اپنی بداعتمادی ظاہر کر دی ہے۔

وَ لَمَّا فَتَحُوۡا مَتَاعَہُمۡ وَجَدُوۡا بِضَاعَتَہُمۡ رُدَّتۡ اِلَیۡہِمۡ ؕ قَالُوۡا یٰۤاَبَانَا مَا نَبۡغِیۡ ؕ ہٰذِہٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتۡ اِلَیۡنَا ۚ وَ نَمِیۡرُ اَہۡلَنَا وَ نَحۡفَظُ اَخَانَا وَ نَزۡدَادُ کَیۡلَ بَعِیۡرٍ ؕ ذٰلِکَ کَیۡلٌ یَّسِیۡرٌ﴿۶۵﴾

۶۵۔اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا ان کی پونجی انہیں واپس کر دی گئی کہنے لگے:اے ہمارے ابا! ہمیں اور کیا چاہیے؟دیکھیے! ہماری یہ پونجی ہمیں واپس کر دی گئی ہے اور ہم اپنے اہل و عیال کے لیے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور ایک اونٹ کا بوجھ غلہ زیادہ لائیں گے اور وہ غلہ آسانی سے (حاصل) ہو جائے گا۔

65۔ جب دیکھا کہ یوسف علیہ السلام نے غلہ کی قیمت بھی واپس کی ہے تو یہ بات مزید باعث اطمینان ہو گئی کہ ایسے مہربان شخص کے پاس بنیامین کو لے کر جانے میں کوئی باک نہیں ہے۔ اس سے اولاد یعقوب کے مؤقف میں تقویت آ گئی اور انہوں نے اپنے مؤقف کی حمایت میں مزید چند تاکیدی باتوں کا اضافہ کیا۔ اول یہ کہ بنیامین کے بھیجنے سے اہل و عیال کے لیے غلہ مل جائے گا۔ دوم یہ کہ ایسے شخص کے پاس جانے میں ہمیں تحفظ ہے۔ سوم یہ کہ بنیامین کے جانے سے ایک بار شتر کا اضافہ ہو جائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام غلہ کی تقسیم ایک شتر کے حساب سے کرتے تھے اور راشننگ کا نظام نافذ تھا۔ چہارم یہ کہ بنیامین کے جانے سے اعتماد بحال ہو گا اور ان سب چیزوں کا حصول آسان ہو جائے گا۔

قَالَ لَنۡ اُرۡسِلَہٗ مَعَکُمۡ حَتّٰی تُؤۡتُوۡنِ مَوۡثِقًا مِّنَ اللّٰہِ لَتَاۡتُنَّنِیۡ بِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ یُّحَاطَ بِکُمۡ ۚ فَلَمَّاۤ اٰتَوۡہُ مَوۡثِقَہُمۡ قَالَ اللّٰہُ عَلٰی مَا نَقُوۡلُ وَکِیۡلٌ﴿۶۶﴾

۶۶۔ (یعقوب نے) کہا: میں اسے ہرگز تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کے ساتھ عہد نہ کرو کہ تم اسے میرے پاس ضرور واپس لاؤ گے مگر یہ کہ تم (کسی مشکل میں) گھیر لیے جاؤ پھر جب انہوں نے اپنا عہد دے دیا تو یعقوب نے کہا: ہم جو بات کر رہے ہیں اس پر اللہ ضامن ہے۔

66۔ یہ عہد و میثاق ان باتوں کے بارے میں ہے جو انسان کے دائرﮤ اختیار میں ہیں جیسا کہ ان لوگوں نے جان بوجھ کر یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا۔ اگر با امر مجبوری اس کی خلاف ورزی ہو گئی تو قابل درگزر ہو گا کیونکہ اس زمانے میں کنعان سے مصر کا سفر کرنا خطرے سے خالی نہ تھا اور سفر بھی دراز تھا۔ عہد و پیمان ملنے کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام نے اللہ پر توکل کا اظہار کیا۔ کیونکہ توکل کا مطلب اسباب و علل سے بے نیازی نہیں ہے بلکہ توکل کا مطلب یہ ہے کہ صرف اسباب و علل کافی نہیں ہیں بلکہ ان کے ماوراء ارادﮤ الہی درکار ہوتا ہے۔ وہی قابل بھروسہ ہے۔

وَ قَالَ یٰبَنِیَّ لَا تَدۡخُلُوۡا مِنۡۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّ ادۡخُلُوۡا مِنۡ اَبۡوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ ؕ وَ مَاۤ اُغۡنِیۡ عَنۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ ۚ وَ عَلَیۡہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُتَوَکِّلُوۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ اور یعقوب نے کہا: بیٹو! تم سب ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا اور میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے کچھ بھی کام نہیں آ سکتا، حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور بھروسا کرنے والوں کو اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔

67۔ ان ہدایات کے پیچھے کون سے عوامل اور مقاصد کارفرما تھے اس کی طرف آیت میں کوئی اشارہ نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ نظر بد سے بچنا مقصود ہو یا یہ کہ کسی حادثے کی صورت میں باپ (یعقوب) کو کچھ اور بیٹوں سے بچھڑنا نہ پڑے۔

وَ لَمَّا دَخَلُوۡا مِنۡ حَیۡثُ اَمَرَہُمۡ اَبُوۡہُمۡ ؕ مَا کَانَ یُغۡنِیۡ عَنۡہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ اِلَّا حَاجَۃً فِیۡ نَفۡسِ یَعۡقُوۡبَ قَضٰہَا ؕ وَ اِنَّہٗ لَذُوۡ عِلۡمٍ لِّمَا عَلَّمۡنٰہُ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿٪۶۸﴾

۶۸۔اور جب وہ داخل ہوئے جہاں سے ان کے والد نے انہیں حکم دیا تھا تو کوئی انہیں اللہ سے بچانے والا نہ تھا مگر یہ کہ یعقوب کے دل میں ایک خواہش تھی جسے انہوں نے پورا کر دیا اور یعقوب یقینا صاحب علم تھے اس لیے کہ ہم نے انہیں علم دیا تھا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

68۔ ممکن ہے خواہش جو پوری ہو گئی، یہ ہو کہ وہ خطرہ ٹل گیا جو ایک دروازے سے داخل ہونے کی صورت میں سب کو لاحق ہو سکتا تھا۔

وَ لَمَّا دَخَلُوۡا عَلٰی یُوۡسُفَ اٰوٰۤی اِلَیۡہِ اَخَاہُ قَالَ اِنِّیۡۤ اَنَا اَخُوۡکَ فَلَا تَبۡتَئِسۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۶۹﴾

۶۹۔ اور جب یہ لوگ یوسف کے ہاں داخل ہوئے تو یوسف نے اپنے بھائی کو اپنے پاس جگہ دی ۔ کہا : بے شک میں ہی تیرا بھائی ہوں پس ان لوگوں کے سلوک پر ملال نہ کرنا۔

فَلَمَّا جَہَّزَہُمۡ بِجَہَازِہِمۡ جَعَلَ السِّقَایَۃَ فِیۡ رَحۡلِ اَخِیۡہِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَیَّتُہَا الۡعِیۡرُ اِنَّکُمۡ لَسٰرِقُوۡنَ﴿۷۰﴾

۷۰۔ پھر جب (یوسف نے) ان کا سامان تیار کر لیا تو اپنے بھائی کے سامان میں پیالہ رکھ دیا پھر کسی پکارنے والے نے آواز دی : اے قافلے والو! تم چور ہو۔

70۔ اپنے بھائی کے سامان میں پیالہ رکھنا حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف سے ایک تدبیر و حیلہ تھا جو غالباً دونوں برادران نے مل کر بنایا تھا اور بنیامین وقتی خفت اٹھانے کے لیے تیار ہو گئے تھے۔

انہیں سارق کہنا چونکہ پہلے سے بنیامین کے ساتھ طے تھا اس لیے کوئی حرج نہیں ہے۔ ثانیاً یہ کہ پیالہ عمداً رکھنے کے راز سے یہ آواز دینے والا واقف ہی نہ ہو گا، لہٰذا ممکن ہے کہ آواز دینے والا ان کو فی الواقع چور گمان کرتا ہو۔