آیات 70 - 72
 

فَلَمَّا جَہَّزَہُمۡ بِجَہَازِہِمۡ جَعَلَ السِّقَایَۃَ فِیۡ رَحۡلِ اَخِیۡہِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَیَّتُہَا الۡعِیۡرُ اِنَّکُمۡ لَسٰرِقُوۡنَ﴿۷۰﴾

۷۰۔ پھر جب (یوسف نے) ان کا سامان تیار کر لیا تو اپنے بھائی کے سامان میں پیالہ رکھ دیا پھر کسی پکارنے والے نے آواز دی : اے قافلے والو! تم چور ہو۔

قَالُوۡا وَ اَقۡبَلُوۡا عَلَیۡہِمۡ مَّا ذَا تَفۡقِدُوۡنَ﴿۷۱﴾

۷۱۔ وہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور بولے: تمہاری کیا چیز کھو گئی ہے؟

قَالُوۡا نَفۡقِدُ صُوَاعَ الۡمَلِکِ وَ لِمَنۡ جَآءَ بِہٖ حِمۡلُ بَعِیۡرٍ وَّ اَنَا بِہٖ زَعِیۡمٌ﴿۷۲﴾

۷۲۔ کہنے لگے: بادشاہ کا پیالہ کھو گیا ہے اور جو اسے پیش کر دے اس کے لیے ایک بار شتر (انعام) ہے اور میں اس کا ضامن ہوں۔

تشریح کلمات

صُوَاعَ:

( ص و ع ) اس برتن کو کہتے ہیں جس میں کوئی مشروب ڈال کر پیا جاتا ہے اور جس سے غلہ ناپا جاتا ہے اسے صاع کہتے ہیں۔ صُوَاعَ صاع کے معنوں میں صرف ایک لغت میں آیا ہے۔ ( الصحاح )

زَعِیۡمٌ:

( زع م ) زعامہ ذمہ دار اور ضامن ہونے کے معنوں میں ہے۔ یہ اصل میں زعامت و ریاست سے ہے۔ کفیل اور رئیس کو زعیم اس لیے کہتے ہیں کہ ان میں زعم و گمان کا بہت دخل ہوتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَلَمَّا جَہَّزَہُمۡ بِجَہَازِہِمۡ: اپنے بھائی کے سامان میں پیالہ رکھنا حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف سے ایک تدبیر و حیلہ تھا جو غالباً دونوں برادران نے مل کر بنایا تھا اور بنیامین وقتی خفت اٹھانے کے لیے تیار ہو گئے تھے۔

۲۔ اِنَّکُمۡ لَسٰرِقُوۡنَ : ان کو سارق کہنا چونکہ پہلے سے بنیامین کے ساتھ طے تھا اس لیے کوئی حرج نہیں ہے۔ ثانیاً یہ کہ پیالہ عمداً رکھنے کے راز سے یہ آواز دینے والا واقف ہی نہ ہو گا لہٰذا ممکن ہے کہ آواز دینے والا ان کو فی الواقع چور گمان کرتا ہو۔

۳۔ وَّ اَنَا بِہٖ زَعِیۡمٌ: حضرت یوسف علیہ السلام کا قول ہو سکتا ہے۔ دیگر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قافلہ واپس حضرت یوسف علیہ السلام کے دربار میں پہنچ گیا۔

اہم نکات

۱۔ ایک جائز مسئلہ کے حل کے لیے حیلہ اپنایا جا سکتا ہے۔


آیات 70 - 72