آیت 77
 

قَالُوۡۤا اِنۡ یَّسۡرِقۡ فَقَدۡ سَرَقَ اَخٌ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ ۚ فَاَسَرَّہَا یُوۡسُفُ فِیۡ نَفۡسِہٖ وَ لَمۡ یُبۡدِہَا لَہُمۡ ۚ قَالَ اَنۡتُمۡ شَرٌّ مَّکَانًا ۚ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا تَصِفُوۡنَ﴿۷۷﴾

۷۷۔(برادران یوسف نے) کہا: اگر اس نے چوری کی ہے (تو نئی بات نہیں) اس کے بھائی (یوسف)نے بھی تو پہلے چوری کی تھی، پس یوسف نے اس بات کو دل میں سہ لیا اور اسے ان پر ظاہر نہ کیا (البتہ اتنا ضرور) کہا: تم لوگ برے ہو (نہ کہ ہم دونوں) اور جو بات تم بیان کر رہے ہو اسے اللہ بہتر جانتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ ہنوز ان کے دلوں میں یوسف علیہ السلام اور بنیامین کے خلاف حسد کی آگ سرد نہیں ہوئی کہ پہلے تو کہہ دیا ہم اولاد یعقوب چور نہیں ہیں۔ جب پیالہ بنیامین کے تھیلے سے برآمد ہوا تو بنیامین اور یوسف علیہ السلام کو اپنے سے الگ شمار کیا اور کہا: یہ دو بھائی جو ایک ماں سے ہیں ، چور ہیں۔ اس سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بنیامین کے ساتھ کیا سلوک کرتے تھے۔ واقعہ اس طرح نقل کرتے ہیں:

حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ کا انتقال ہوا تو ان کی پھوپھی نے ان کی پرورش کی۔ یوسف علیہ السلام بڑے ہوئے تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے اسے اپنے پاس لانا چاہا۔ پھوپھی چونکہ یوسف علیہ السلام کو بہت چاہتی تھی، اس نے انہیں اپنے پاس رکھنے کے لیے ایک بہانہ کیا کہ ایک کمر بند جو حضرت اسحاق علیہ السلام کے زیر استعمال رہا اور خاندانی یادگار کے طور پر اہم چیز تھی، اسے یوسف علیہ السلام کی کمر پر باندھ دیا اور دعویٰ کیا کہ یوسف علیہ السلام اسے چوری کرنا چاہتے تھے تاکہ سزا میں یوسف علیہ السلام کو اپنے پاس رکھ سکے۔

۲۔ فَاَسَرَّہَا یُوۡسُفُ فِیۡ نَفۡسِہٖ: برادران نے یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینک دیا۔ غلام بنا کر فروخت کر دیا۔ آج وہی یوسف علیہ السلام ان کی عزت و تکریم سے پذیرائی کرتے ہیں۔ ان کو غلہ فراہم کرتے ہیں۔ عین اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے جب ان سے چور کہتے سنا ہو گا تو طبیعتاً غصہ آیا ہو گا لیکن آپ ؑغصہ پی گئے اور ان ساتھ پھر بھی پیغمبرانہ سلوک فرمایا۔

۳۔ اَنۡتُمۡ شَرٌّ مَّکَانًا: صرف اتناکہہ دیا: تم لوگ برے ہو اور میرے بارے میں جو کچھ کہہ رہے ہو کہ مجھے بھیڑیے نے کھایا ہے اور میں نے چوری کی ہے، اس کے بارے میں اللہ بہتر جانتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ غصہ پی جانا، انتقام نہ لینا، اخلاق انبیاء ہیں : فَاَسَرَّہَا یُوۡسُفُ فِیۡ نَفۡسِہٖ۔۔۔۔


آیت 77