اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ مَاتُوۡا وَ ہُمۡ کُفَّارٌ فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡ اَحَدِہِمۡ مِّلۡءُ الۡاَرۡضِ ذَہَبًا وَّلَوِ افۡتَدٰی بِہٖ ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ وَّ مَا لَہُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ﴿٪۹۱﴾

۹۱۔ جنہوں نے کفر اختیار کیا اور کفر کی حالت میں مر گئے ان میں سے کسی سے اس قدر سونا بھی، جس سے روئے زمین بھر جائے، ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اگرچہ وہ اسے فدیہ میں دے دیں، ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہو گا اور ان کی مدد کرنے والے نہ ہوں گے۔

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ﴿۹۲﴾

۹۲۔ جب تک تم اپنی پسند کی چیزوں میں سے خرچ نہ کرو تب تک کبھی نیکی کو نہیں پہنچ سکتے اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو یقینا اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔

92۔ سابقہ آیت میں کہا گیا کہ کافر روئے زمین بھر سونا فدیہ میں دے دے تو بھی قبول نہ ہو گا۔ اس سے ذہن میں یہ خیال آنا عین ممکن ہے کہ مال خرچ کرنے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس وہم کو دور کرنے کے لیے فرمایا: مومن کے لیے مال بہترین وسیلہ ہے جس کے ذریعے وہ نیکی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو سکتا ہے اور انفاق کی کیفیت بھی بیان فرمائی کہ جس چیز سے آپ کو محبت ہے اگر اس چیز کو راہِ خدا میں دیں تو پتہ چلے گا کہ اللہ کی محبت، مال کی محبت پر غالب ہے۔ یہی نیکی اور کامیابی ہے۔

کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلًّا لِّبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسۡرَآءِیۡلُ عَلٰی نَفۡسِہٖ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تُنَزَّلَ التَّوۡرٰىۃُ ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِالتَّوۡرٰىۃِ فَاتۡلُوۡہَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۹۳﴾

۹۳۔ بنی اسرائیل کے لیے کھانے کی ساری چیزیں حلال تھیں بجز ان چیزوں کے جو اسرائیل نے توریت نازل ہونے سے پہلے خود اپنے اوپر حرام کر لی تھیں، کہدیجئے: اگر تم سچے ہو تو توریت لے آؤ اور اسے پڑھو ۔

93۔ یہودیوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے جزئی اور فروعی اعتراضات کا جواب ہے۔ وہ موجودہ تحریف شدہ یہودی تعلیمات کی روشنی میں اعتراض اٹھاتے ہیں اور قرآن اصلی دین ابراہیمی کی روشنی میں جواب دے رہا ہے۔ اعتراض یہ تھا: اسلام نے کھانے پینے کی بہت سی ایسی چیزوں کو حلال قرار دیا ہے جو سابقہ انبیاء کے ادوار میں حرام تھیں، مثلا وہ اونٹ کا گوشت حرام سمجھتے تھے لیکن اسلام اسے حلال قرار دیتا ہے۔ پھر اسلام کس طرح دین ابراہیمی کا پیروکار ہو سکتا ہے؟ جواب میں قرآن ارشاد فرماتا ہے: بنی اسرائیل کے لیے کھانے کی ساری چیزیں حلال تھیں، سوائے ان کے جن سے اسرائیل یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام نے بعض طبی ضروریات کے تحت اجتناب کیا تھا، لیکن بعد میں بنی اسرائیل نے اسی امر کو اپنی دینی تعلیمات کا حصہ بنا لیا۔ پھر قرآن دعوت دیتا ہے کہ توریت لے آؤ اور دیکھ لو کہ یہ چیزیں حلال ہیں یا نہیں۔

فَمَنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿؃۹۴﴾

۹۴۔ اس کے بعد بھی جنہوں نے اللہ کی طرف جھوٹی نسبت دی وہی لوگ ظالم ہیں۔

قُلۡ صَدَقَ اللّٰہُ ۟ فَاتَّبِعُوۡا مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ﴿۹۵﴾

۹۵۔ کہدیجئے: اللہ نے سچ فرمایا، پس تم یکسوئی سے دین ابراہیمی کی پیروی کرو اور ابراہیم مشرکین میں سے نہ تھے۔

اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیۡ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّ ہُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۚ۹۶﴾

۹۶۔سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا وہ وہی ہے جو مکہ میں ہے جو عالمین کے لیے بابرکت اور راہنما ہے۔

96۔ بَکَّۃَ اژدھام کی جگہ کو کہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بکہ بابلی لفظ ہے جس کے معنی آبادی کے ہیں جیسے بعلبک یعنی بعل کی آبادی۔ ممکن ہے یہ لفظ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے استعمال فرمایا ہو، کیونکہ آپ علیہ السلام بابل سے یہاں تشریف لائے تھے، چنانچہ قدیم صحیفوں میں اس وادی کا یہی نام مذکور ہے۔ دنیا کا یہ پہلا گھر عالمین کے لیے ہدایت کا مرکز رہا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر آج تک تقربِ الہٰی کے لیے مرجعِ خلائق ہے۔ یہ جگہ وحی الہٰی کا محلِ نزول اور ہادئ بشریت، محسنِ انسانیت کی جائے ظہور ہے۔

فِیۡہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبۡرٰہِیۡمَ ۬ۚ وَ مَنۡ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا ؕ وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۹۷﴾

۹۷۔ اس میں واضح نشانیاں ہیں (مثلاً) مقام ابراہیم اور جو اس میں داخل ہوا وہ امان والا ہو گیا اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس گھر کا حج کرے اور جو کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو (اس کا اپنا نقصان ہے) اللہ تو عالمین سے بے نیاز ہے۔

97۔ مقامِ ابراہیم علیہ السلام ، یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدم مبارک کی نشانی جو مختلف ادوار میں پیش آنے والے قدرتی،حربی اور تخریبی حالات کے باجود محفوظ ہے ورنہ ایسے حالات میں دوسری جگہوں پر پورے تمدن کے نشانات اور پوری قوم کے آثار مٹ جاتے ہیں۔

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لِمَ تَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ٭ۖ وَ اللّٰہُ شَہِیۡدٌ عَلٰی مَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۹۸﴾

۹۸۔کہدیجئے: اے اہل کتاب! تم اللہ کی نشانیوں کا انکار کیوں کرتے ہو جب کہ اللہ تمہارے اعمال کا مشاہدہ کرنے والا ہے۔

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ تَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا وَّ اَنۡتُمۡ شُہَدَآءُ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۹۹﴾

۹۹۔ کہدیجئے : اے اہل کتاب ! تم ایمان لانے والوں کو راہ خدا سے کیوں روکتے ہو؟ تم چاہتے ہو اس راہ میں کجی آئے حالانکہ تم خود اس پر شاہد ہو (کہ وہ راہ راست پر ہیں) اور اللہ تمہاری حرکتوں سے غافل نہیں ہے۔

98۔ 99 کھانے کی چیزوں کی حرمت و حلیت، کعبے کی قداست و قدامت اور اس کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ربط و نسبت اور دیگر حقائق سے پردہ اٹھانے کے بعد اب ان آیات میں ارشاد ہو رہا ہے کہ اے اہل کتاب تم اللہ کی نشانیوں کے منکر کیوں ہو رہے ہو حالانکہ تم خود ان کے برحق ہونے پر شاہد ہو۔ لیکن اہل کتاب نہ صرف خود ان آیات کے منکر ہیں بلکہ وہ اسلامی احکام اور قبلۂ مسلمین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر کے اہل ایمان کو گمراہ کرنے کی گھناؤنی سازش بھی کر رہے ہیں۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تُطِیۡعُوۡا فَرِیۡقًا مِّنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ یَرُدُّوۡکُمۡ بَعۡدَ اِیۡمَانِکُمۡ کٰفِرِیۡنَ﴿۱۰۰﴾

۱۰۰۔اے ایمان والو! اگر تم نے اہل کتاب میں سے کسی ایک گروہ کی بات مان لی تو وہ تمہارے ایمان لانے کے بعد تمہیں کافر بنا دیں گے۔

100۔ ایک یہودی سازش کار نے اوس اور خزرج کے دونوں قبیلوں کو پھر سے لڑانے کے لیے عہد جاہلیت کی مشہور لڑائی ”جنگ بعاث“ کے جنگ نامہ کے اشعار پڑھ کر پرانی عداوتوں کو تازہ کرنے کی سعی کی، لیکن رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصیحتوں کی وجہ سے جنگ نہ چھڑی۔ اس سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔