وَ کَیۡفَ تَکۡفُرُوۡنَ وَ اَنۡتُمۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتُ اللّٰہِ وَ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلُہٗ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡتَصِمۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۱۰۱﴾٪

۱۰۱۔ اور تم کس طرح پھر کفر اختیار کر سکتے ہو جبکہ تمہیں اللہ کی آیات سنائی جا رہی ہیں اور تمہارے درمیان اللہ کا رسول بھی موجود ہے؟ اور جو اللہ سے متمسک ہو جائے وہ راہ راست ضرور پا لے گا۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ﴿۱۰۲﴾

۱۰۲۔اے ایمان والو! اللہ کا خوف کرو جیسا کہ اس کا خوف کرنے کا حق ہے اور جان نہ دینا مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔

102۔ روایت ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے جب حق تقویٰ ادا کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: یطاع فلا یعصی و یذکر فلا ینسی و یشکر فلا یکفر ۔ ”اللہ کی اطاعت ہو پھر معصیت نہ کرے، ذکر خدا بجا لائے پھر اللہ کو نہ بھولے، اس کا شکر ادا کرے پھر کفرانِ نعمت نہ کرے۔“

وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ﴿۱۰۳﴾

۱۰۳۔ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، اس طرح اللہ اپنی آیات کھول کر تمہارے لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔

103۔ جب یہ حکم آتا ہے کہ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو تو فوراً ذہنوں میں ایک خطرے کا احساس ہوتا ہے کہ کوئی سیلاب آنے والا ہے، غرق ہونے کا خطرہ ہے، کوئی طوفان آنے والا ہے کہ اس امت کی کشتی کا شیرازہ بکھرنے والا ہے، کوئی آندھی آنے والی ہے جو اس انجمن کو منتشر کر دے۔ اللہ کی رسی کو تھام لو، وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا سے پتہ چلا کہ فرقہ پرستی کس قسم کا سیلاب ہے، کس قدر خطرناک طوفان اور کتنی مہلک آندھی ہے۔ چنانچہ رسولِ اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد سے آج تک ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ اپنے مسلک سے ذرا اختلاف رکھنے والوں کو کافر قرار دے دیا جاتا ہے۔ دین سے زیادہ انہیں مسلک عزیز ہے اور دوسروں کو زیر کرنے کی خاطر اپنے دین تک سے ہاتھ دھونے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔

وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿۱۰۴﴾

۱۰۴۔اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔

104۔ صحت مند معاشرہ تشکیل دینے کے لیے اسلام کے پاس نظامِ دعوت اور کلمۂ حق کہنے کا ایک فریضہ ہے۔ اسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہتے ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے: تعمر الارض و ینتصف من الاعداء و یستقیم ۔ ”زمین کی آبادکاری، دشمنوں سے انتقام اور نظام کا استحکام، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں مضمر ہے۔“

وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ تَفَرَّقُوۡا وَ اخۡتَلَفُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡبَیِّنٰتُ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ﴿۱۰۵﴾ۙ

۱۰۵۔ اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو واضح دلائل آجانے کے بعد بٹ گئے اور اختلاف کا شکار ہوئے اور ایسے لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہو گا ۔

105۔ سابقہ آیت میں بھی ذکر کیا گیا ہے کہ قرآن آئندہ وقوع پذیر ہونے والے حالات کے پیش نظر امت کو پیش آنے والے حادثات سے قبل از وقت خبردار کرتا ہے۔ قرآن جب بھی کسی معاملے میں تائیدی جملوں کے ساتھ تنبیہ کرتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ یہ حادثہ پیش آنے والا ہے یا اس واقعے کا ارتکاب ہونے والا ہے۔ چنانچہ زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کے آخری ایام میں ہی یہ اختلاف خود حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے شروع ہوا اور یہ اختلاف اس قدر بڑھ گیا کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان اختلاف کرنے والوں کو اپنی بارگاہ سے قوموا عنی کہ کر نکال دیا۔ ملاحظہ ہو صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 846 کتاب المرضی حدیث 5669۔ صحیح مسلم باب ترک الوصیۃ جلد دوم صفحہ 42۔

یَّوۡمَ تَبۡیَضُّ وُجُوۡہٌ وَّ تَسۡوَدُّ وُجُوۡہٌ ۚ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اسۡوَدَّتۡ وُجُوۡہُہُمۡ ۟ اَکَفَرۡتُمۡ بَعۡدَ اِیۡمَانِکُمۡ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَکۡفُرُوۡنَ﴿۱۰۶﴾

۱۰۶۔ قیامت کے دن کچھ لوگ سرخرو اور کچھ لوگ سیاہ رو ہوں گے، پس روسیاہ لوگوں سے کہا جائے گا :کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا؟ پس اب اپنے اس کفر کے بدلے عذاب چکھو۔

106۔ ایمان کے بعد کفر سے مراد اہل بدعت اور باطل نظریات رکھنے والے فرقے ہیں، جیسا کہ روایت میں آیا ہے (مجمع البیان ذیل آیت)

وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ ابۡیَضَّتۡ وُجُوۡہُہُمۡ فَفِیۡ رَحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۱۰۷﴾

۱۰۷۔ اور جن کے چہرے روشن ہوں گے وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

تِلۡکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ نَتۡلُوۡہَا عَلَیۡکَ بِالۡحَقِّ ؕ وَ مَا اللّٰہُ یُرِیۡدُ ظُلۡمًا لِّلۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۰۸﴾

۱۰۸۔ یہ ہیں اللہ کی نشانیاں جو صحیح انداز میں ہم آپ کو سنا رہے ہیں اور اللہ اہل عالم پر ظلم نہیں کرنا چاہتا۔

وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ ﴿۱۰۹﴾٪

۱۰۹۔ اور آسمانوں اور زمین کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہے اور تمام معاملات کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے۔

کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ وَ لَوۡ اٰمَنَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ مِنۡہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ اَکۡثَرُہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ﴿۱۱۰﴾

۱۱۰۔تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو خود ان کے لیے بہتر تھا۔ اگرچہ ان میں سے کچھ لوگ ایمان والے ہیں لیکن ان کی اکثریت فاسق ہے۔

110۔ ہر حکم شرعی جو آپ کے علم میں ہے اسے دوسروں تک پہنچانا واجب ہے۔ آپ کے سامنے ایک شخص گناہ کرتا ہے تو آپ پر واجب ہے کہ اسے روکیں، اگر آپ کے پاس طاقت ہے تو طاقت استعمال کریں ورنہ زبانی طور پر۔ اگر یہ غیر مؤثر ہے تو قلبی کراہت ضروری ہے۔ اسی طرح اگر آپ کے سامنے ایک شخص وضو درست طریقے سے نہیں کر رہا تو آپ پر واجب ہے اسے صحیح طریقہ بتائیں۔ بہترین امت ہونے کا دار و مدار امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ہے۔ اس پروگرام پر عمل سے اسلام کا انسان ساز اور حیات آفرین نظام عملاً نافذ رہتا ہے۔ تفسیر در منثور میں آیا ہے: خیر امت سے مراد اہل بیت نبی اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں۔