آیت 91
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ مَاتُوۡا وَ ہُمۡ کُفَّارٌ فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡ اَحَدِہِمۡ مِّلۡءُ الۡاَرۡضِ ذَہَبًا وَّلَوِ افۡتَدٰی بِہٖ ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ وَّ مَا لَہُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ﴿٪۹۱﴾

۹۱۔ جنہوں نے کفر اختیار کیا اور کفر کی حالت میں مر گئے ان میں سے کسی سے اس قدر سونا بھی، جس سے روئے زمین بھر جائے، ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اگرچہ وہ اسے فدیہ میں دے دیں، ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہو گا اور ان کی مدد کرنے والے نہ ہوں گے۔

تشریح کلمات

مِّلۡءُ:

( م ل ء ) برتن کا پر ہو جانا۔ کیونکہ درباری اور طبقہ حاکمہ نظروں کو ہیبت و جلال سے بھر دیتے ہیں، اسی لیے انہیں ملأ کہتے ہیں۔

افۡتَدٰی:

( ف د ی ) فدیہ یعنی کچھ دے کر کسی دوسرے کو مصیبت سے چھڑا لینا۔ افْتَدٰى اپنے آپ کو مال کے عوض چھڑا لینا۔

تفسیر آیات

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زندگی میں توبہ نہیں کی اور کفر کی حالت میں مر گئے۔ ایسے لوگوں نے اگر دنیا میں روئے زمین کے برابر بھی سونا خرچ کیا ہوتا یا قیامت کے دن اپنی نجات کی خاطر اتنا مال بطور فدیہ ادا کریں، تب بھی اللہ قبول نہیں فرمائے گا۔ دوسری جگہ ارشاد ہوا:

فَالۡیَوۡمَ لَا یُؤۡخَذُ مِنۡکُمۡ فِدۡیَۃٌ وَّ لَا مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ مَاۡوٰىکُمُ النَّارُ ؕ ہِیَ مَوۡلٰىکُمۡ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿﴾ (۵۷ حدید: ۱۵)

پس آج تم سے نہ کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ ان سے جنہوں نے کفر اختیار کیا۔ تمہارا ٹھکانا آتش ہے وہی تمہارے لیے سزاوار ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔

حدیث میں آیا ہے:

قیامت کے دن کافر کو پیش کیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا: اگر تیرے پاس اتنا سونا ہو کہ روئے زمین بھر جائے، کیا اس کو فدیہ میں دے دیتا، تو وہ کہے گا: ہاں! تو اس سے کہا جائے گا، تجھ سے دنیا میں اس سے بہت آسان چیز مانگی تھی، تو نے رد کیا۔ (مجمع البیان)

اہم نکات

۱۔ قرآن معاوضہ دے کر گناہ معاف کرانے کے نظریے کی نفی کرتا ہے۔


آیت 91