آیت 92
 

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ﴿۹۲﴾

۹۲۔ جب تک تم اپنی پسند کی چیزوں میں سے خرچ نہ کرو تب تک کبھی نیکی کو نہیں پہنچ سکتے اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو یقینا اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔

تشریح کلمات

الۡبِرَّ:

( ب ر ر ) البِرْ کے معنی مطلق نیکی کے ہیں۔ تاہم الْبِرَّ ، نیکیاں انجام دینے میں ایک معتدبہ منزل پر فائز ہونے کی صورت کو کہتے ہیں۔ چنانچہ الْبِرَّ کی تعریف سورہ بقرہ کی آیت ۱۷۷ میں بیان ہو چکی ہے۔

تفسیر آیات

ربط کلام: سابقہ آیات میں کہاگیا تھا کہ کافر روئے زمین بھر سونا فدیہ کر دے تو بھی قبول نہ ہو گا۔ یہاں مومن کے ذہن میں یہ خیال آ سکتا ہے کہ مال خرچ کرنے کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس توہم کو دور کرنے کے لیے فرمایا: مومن کے لیے مال ایک بہترین وسیلہ ہے، جس کے ذریعے وہ نیکی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو سکتا ہے نیز سلسلۂ حکم اہل کتاب کے بارے میں بھی اس طرح مربوط ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کی برگزیدہ قوم، اللہ کے فرزند اور اولیاء اللہ خیال کرتے ہیں، جب کہ وہ حرص، بخل اور دولت کے نشے میں اللہ کے احکام کو پامال کرتے ہیں۔ اس آیت نے بتایا کہ اگر اللہ سے محبت ہو تو دنیا کی کوئی چیز اس کے مقابلےمیں عزیز نہ ہو گی۔ اگر کسی کے دل میں دنیا کی کوئی چیز حب خدا پر غالب آ جائے تو وہ سمجھ لے کہ نیکی کے مقام پر فائز نہیں ہے۔

تمام نیکیوں میں انفاق مال کو ایک اہم خصوصیت حاصل ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انفاق مال کو بہت پسند فرماتا ہے۔ حتیٰ کہ ائمہ علیہم السلام کی عظیم نیکیوں میں خصوصی طور پر ان کے انفاق کو پسند فرمایا۔ چنانچہ خود رکوع سے زیادہ رکوع میں دی جانے والی زکوٰۃ کو درجہ دیا گیا۔

چنانچہ قرآن میں اولیاء کی یہ خصوصیت بتائی گئی:

وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا﴿﴾اِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡہِ اللّٰہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّ لَا شُکُوۡرًا﴿﴾ (۷۶ دہر: ۸۔۹)

اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں، (وہ ان سے کہتے ہیں) ہم تمہیں صرف اللہ (کی رضا) کے لیے کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ تو کوئی معاوضہ چاہتے ہیں اورنہ ہی شکرگزاری۔

مِمَّا تُحِبُّوۡنَ: جو چیز خود تمہاری اپنی پسند کی ہو اسے راہ خدا میں خرچ کرے تو مقام بِرْ پر فائز ہو گا۔ یعنی یہ مقام اس کو ملے گا جو اپنی پسند پر اللہ کی پسند کو ترجیح دیتا ہے۔ اگر ناکارہ اور ردی چیز دے دی جائے تو اس میں کوئی ایثار کارفرما نہ ہو گا۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا:

وَ لَا تَیَمَّمُوا الۡخَبِیۡثَ مِنۡہُ تُنۡفِقُوۡنَ وَ لَسۡتُمۡ بِاٰخِذِیۡہِ اِلَّاۤ اَنۡ تُغۡمِضُوۡا فِیۡہِ ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۶۷)

اس میں سے ردی چیز دینے کا قصد ہی نہ کرو اور (اگر کوئی وہی چیز تمہیں دے دے تو) تم خود اسے لینا گوارا نہ کرو گے مگر یہ کہ چشم پوشی کرو۔

یہ ہے بِرّ یعنی نیکی کا مقام اور اولیاء اللہ کاجذبہ ایثار۔

امام صادق (ع) سے روایت ہے:

اَلْبِرُّ وَ حُسْنُ الْخُلْقِ یَعْمُرَانِ الدِّیَارَ وَ یَزِیْدَانِ فِی الْاَعْمَارِ ۔ (اصول الکافی ۲: ۱۰۰۔ باب حسن الخلق)

نیکی اور حسن خلق مملکت کی ترقی اور عمروں میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی محبت کو ہر چیز کی محبت پر برتری حاصل ہو تو یہی مقام بِر ہے۔


آیت 92