اِنَّمَا یُرِیۡدُ الشَّیۡطٰنُ اَنۡ یُّوۡقِعَ بَیۡنَکُمُ الۡعَدَاوَۃَ وَ الۡبَغۡضَآءَ فِی الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِ وَ یَصُدَّکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ عَنِ الصَّلٰوۃِ ۚ فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّنۡتَہُوۡنَ﴿۹۱﴾

۹۱۔ شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمہیں یاد خدا اور نماز سے روکے تو کیا تم باز آ جاؤ گے؟

91۔ فھل انتم منتھون (کیا تم باز آؤ گے؟) اس لہجے سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اس سے پہلے شراب نوشی کی ممانعت کی چنداں پرواہ نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بڑے بڑے اصحاب نے کہا: انتھینا انتھینا ”ہم باز آگئے، ہم باز آگئے“ (ابن جریر)۔ دریا بادی اس جگہ لکھتے ہیں: کیا ڈسپلن تھا بارگاہ نبوت کا اور کیسی زبردست قوت تھی عرب کے اس امی حکیم کی کہ دم کے دم میں پرانے اور عمر بھر کے شرابیوں اور جواریوں کو پاک باز اور متقی بلکہ پاک بازوں اور صالحین کے سردار بنا دیا۔

وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ احۡذَرُوۡا ۚ فَاِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا عَلٰی رَسُوۡلِنَا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ﴿۹۲﴾

۹۲۔ اور اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنا بچاؤ کرو، پھر اگر تم نے منہ پھیر لیا تو جان لو ہمارے رسول کی ذمے داری تو بس واضح طور پر حکم پہنچا دینا ہے۔

92۔ شراب جوئے وغیرہ سے باز آنے کا حکم بیان کرنے پر تاکید مزید کے طور پر فرمایا: ان ناپاک چیزوں کو ترک کر کے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اگر اس بار بھی اطاعت نہ ہوئی تو نہایت تہدیدی لہجے میں فرمایا: جان لو! ہمارا رسول تو بس حکم پہنچانے کی ذمہ داری رکھتا ہے۔ لیکن تمہاری یہ نافرمانی خود اللہ تعالیٰ کے خلاف جنگ ہے۔

لَیۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیۡمَا طَعِمُوۡۤا اِذَا مَا اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اَحۡسَنُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿٪۹۳﴾

۹۳۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ان کی ان چیزوں پر کوئی گرفت نہ ہو گی جو وہ کھا پی چکے بشرطیکہ (آئندہ) پرہیز کریں اور ایمان پر قائم رہیں اور نیک اعمال بجا لائیں پھر پرہیز کریں اور ایمان پر قائم رہیں پھر پرہیز کریں اور نیکی کریں اور اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

93۔ تفسیر صافی میں منقول ہے: جب شراب اور جوئے کی حرمت کا حکم بڑی شدت سے آیا تو مہاجرین و انصار نے حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم! ہمارے وہ ساتھی جو دنیا سے چلے گئے یا قتل ہو گئے وہ تو شراب نوشی کرتے تھے، ان کا کیا بنے گا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

کافی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے: ایمان کے مختلف حالات، درجات، طبقہ بندیاں اور منزلیں ہیں۔ کچھ ان میں سے کامل اور کچھ انتہائی کامل ہیں۔ کچھ کم رجحان اور کچھ زیادہ رجحان والے ہیں۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَیَبۡلُوَنَّکُمُ اللّٰہُ بِشَیۡءٍ مِّنَ الصَّیۡدِ تَنَالُہٗۤ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ رِمَاحُکُمۡ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّخَافُہٗ بِالۡغَیۡبِ ۚ فَمَنِ اعۡتَدٰی بَعۡدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۹۴﴾

۹۴۔ اے ایمان والو! اللہ ان شکاروں کے ذریعے تمہیں آزمائش میں ڈالے گا جنہیں تم اپنے ہاتھوں اور اپنے نیزوں کے ذریعے پکڑتے ہو تاکہ اللہ یہ معلوم کرے کہ اس سے غائبانہ طور پر کون ڈرتا ہے، پس جو اس کے بعد (بھی) حد سے تجاوز کرے اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔

94۔ اس کے بعد کی آیت میں حج کے احرام کی حالت میں شکار کی ممانعت کا حکم آنے والا ہے اس کی تمہید کے طور پر فرمایا کہ اس آزمائش میں یہ جاننا مطلوب ہے کہ ان دیکھے خدا سے کون ڈرتا ہے۔ امتحان و آزمائش کے بارے میں پہلے تفصیل سے بات ہو گئی ہے کہ امتحان سے اللہ کوئی علم حاصل نہیں کرنا چاہتا۔ وہ عالم الغیب ہے، بلکہ استحقاق اور قابلیت کے لیے امتحان ضروری ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡتُلُوا الصَّیۡدَ وَ اَنۡتُمۡ حُرُمٌ ؕ وَ مَنۡ قَتَلَہٗ مِنۡکُمۡ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآءٌ مِّثۡلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحۡکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدۡلٍ مِّنۡکُمۡ ہَدۡیًۢا بٰلِغَ الۡکَعۡبَۃِ اَوۡ کَفَّارَۃٌ طَعَامُ مَسٰکِیۡنَ اَوۡ عَدۡلُ ذٰلِکَ صِیَامًا لِّیَذُوۡقَ وَبَالَ اَمۡرِہٖ ؕ عَفَا اللّٰہُ عَمَّا سَلَفَ ؕ وَ مَنۡ عَادَ فَیَنۡتَقِمُ اللّٰہُ مِنۡہُ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ ذُو انۡتِقَامٍ﴿۹۵﴾

۹۵۔ اے ایمان والو! احرام کی حالت میں شکار نہ کرو اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر (کوئی جانور) مار دے تو جو جانور اس نے مارا ہے اس کے برابر ایک جانور مویشیوں میں سے قربان کرے جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل افراد کریں، یہ قربانی کعبہ پہنچائی جائے یا مسکینوں کو کھانا کھلانے کا کفارہ دے یا اس کے برابر روزے رکھے تاکہ اپنے کیے کا ذائقہ چکھے، جو ہو چکا اسے اللہ نے معاف کر دیا اور اگر کسی نے اس غلطی کا اعادہ کیا تو اللہ اس سے انتقام لے گا اور اللہ بڑا غالب آنے والا ، انتقام لینے والا ہے۔

95۔ احرام حج کی حالت میں خشکی کے جانور کا شکار حرام ہے۔ اگر کوئی جان بوجھ کر شکار کرے تو اگر اس جیسا حیوان میسر ہو تو اسے کفارے میں دے دے اور دو عادل افراد گواہی دیں کہ یہ اس جیسا ہے۔ اگر احرام حج میں شکار کرے تو اس شکار کے کفارے کی قربانی منیٰ میں ذبح کرے اور اگر احرام عمرہ میں شکار کرے تو قربانی کو مکہ میں ذبح کرنا ہو گا۔ اگر اس کا کوئی مثل میسر نہیں ہے تو اس کی قیمت کے مساوی گندم مساکین میں تقسیم کی جائے یا اس کے برابر روزے رکھے جائیں۔ برابر یہ ہے کہ اس کی قیمت کے مساوی گندم کو صاع (3 کلو گرام) میں تقسیم کیا جائے اور ہر نصف صاع کا ایک روزہ رکھا جائے۔ (الکافی 4: 83) اگر شکار پہلی بار ہو تو کفارہ ہے لیکن دوبارہ کرے تو گناہ کی شدت کے باعث کفارہ نہیں ہے۔

اُحِلَّ لَکُمۡ صَیۡدُ الۡبَحۡرِ وَ طَعَامُہٗ مَتَاعًا لَّکُمۡ وَ لِلسَّیَّارَۃِ ۚ وَ حُرِّمَ عَلَیۡکُمۡ صَیۡدُ الۡبَرِّ مَا دُمۡتُمۡ حُرُمًا ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ﴿۹۶﴾

۹۶۔ تمہارے لیے سمندری شکار اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا ہے، یہ تمہارے اور مسافروں کے فائدے میں ہے اور جب تک تم احرام میں ہو خشکی کا شکار تم پر حرام کر دیا گیا ہے اور جس اللہ کے سامنے جمع کیے جاؤ گے اس سے ڈرتے رہو۔

96۔ ممکن ہے سمندر کے ذریعے سفر کرنے کی صورت میں زاد راہ ختم ہو جائے تو سمندر کا شکار جائز ہے۔ اس کے حکم کے فروع بہت ہیں جو فقہی کتابوں میں موجود ہیں۔

جَعَلَ اللّٰہُ الۡکَعۡبَۃَ الۡبَیۡتَ الۡحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَ الشَّہۡرَ الۡحَرَامَ وَ الۡہَدۡیَ وَ الۡقَلَآئِدَ ؕ ذٰلِکَ لِتَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ وَ اَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿۹۷﴾

۹۷۔ اللہ نے حرمت کے گھر کعبہ کو لوگوں کے لیے(امور معاش اور معاد کی) کی استواری (کا ذریعہ) بنایا اور حرمت کے مہینوں کو بھی اور قربانی کے جانور کو بھی اور ان جانوروں کو بھی جن کے گلے میں پٹے باندھے گئے ہوں، یہ اس لیے تاکہ تم جان لو کہ اللہ وہ سب کچھ جانتا ہے جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے اور یہ کہ اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

97۔ کعبہ کی اہمیت صرف اس کے تقدسی اور عبادتی پہلو سے نہیں ہے بلکہ اس میں لوگوں کی زندگی کے بہت سے مصالح اور مفادات بھی مضمر ہیں۔ کل کعبہ قتل و غارت کے مارے ہوئے عربوں کے لیے جائے امن تھا۔ سال بھر کی خوفناک خانہ جنگی میں چار ماہ حرمت والے مہینوں میں امن و سکون ملتا تھا جن میں وہ اپنی معیشت اور تجارت کے لیے امن سے آتے جاتے تھے۔ حج کی وجہ سے اس غیر زراعتی خشک علاقوں میں لوگوں کے لیے دنیا بھر سے آنے والی نعمتوں کی فراوانی ہوتی تھی۔ آج کعبہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک ایسا مرکز ہے جہاں امت اسلامیہ کے تقدیر ساز فیصلے ہو سکتے ہیں اگرچہ وقتی طور پر حکومتوں کی مصلحتیں اس راہ میں رکاوٹ ہیں۔

اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ وَ اَنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿ؕ۹۸﴾

۹۸۔ جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے اور بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

مَا عَلَی الرَّسُوۡلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تُبۡدُوۡنَ وَ مَا تَکۡتُمُوۡنَ﴿۹۹﴾

۹۹۔رسول کے ذمے بس حکم پہنچا دینا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو اللہ سب جانتا ہے۔

قُلۡ لَّا یَسۡتَوِی الۡخَبِیۡثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوۡ اَعۡجَبَکَ کَثۡرَۃُ الۡخَبِیۡثِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ﴿۱۰۰﴾٪

۱۰۰۔ (اے رسول) کہدیجئے: ناپاک اور پاک برابر نہیں ہو سکتے خواہ ناپاکی کی فراوانی تمہیں بھلی لگے، پس اے صاحبان عقل اللہ کی نافرمانی سے بچو شاید تمہیں نجات مل جائے ۔

100۔ دین اور شریعت امر واقع اور حقائق پر مبنی قدروں پر استوار ہے اور حقیقت یہ ہے کہ پاک اور ناپاک یکساں نہیں ہو سکتے، خواہ حقائق میں ہوں یا کردار و صفات میں۔ مثلاً حلال و حرام، مفید و مضر، مومن و کافر، عادل و ظالم، مصلح و مفسد اور عالم و جاہل یکساں نہیں ہو سکتے۔