آیات 90 - 91
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ﴿۹۰﴾

۹۰۔اے ایمان والو!شراب اور جوا اور مقدس تھان اور پانسے سب ناپاک شیطانی عمل ہیں پس اس سے پرہیز کرو تاکہ تم نجات حاصل کر سکو۔

اِنَّمَا یُرِیۡدُ الشَّیۡطٰنُ اَنۡ یُّوۡقِعَ بَیۡنَکُمُ الۡعَدَاوَۃَ وَ الۡبَغۡضَآءَ فِی الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِ وَ یَصُدَّکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ عَنِ الصَّلٰوۃِ ۚ فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّنۡتَہُوۡنَ﴿۹۱﴾

۹۱۔ شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمہیں یاد خدا اور نماز سے روکے تو کیا تم باز آ جاؤ گے؟

تفسیر آیات

۱۔ الۡخَمۡرُ: شراب کے بارے میں سورہ بقرہ کی آیت ۲۱۹ میں تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔ انصاب و ازلام کے بارے میں سورہ مائدہ آیت ۳ میں تفصیل بیان ہو چکی ہے۔

حرمت شرا ب کے بارے میں دو حکم اس سے پہلے بھی آ چکے ہیں۔ اب آخری حکم پوری صراحت اور تاکید کے ساتھ اس آیت میں آیا ہے۔ یہ حرمت صرف شراب تک محدود نہیں ہے۔ اس کی حرمت کا اصل سبب اس میں موجود نشہ کی خاصیت ہے، لہٰذا کلی حکم قائم کیا جاتا ہے: کل مسکر حرام ۔ہر نشہ آور چیز حرام ہے یا شراب کی تعریف نشہ آور چیز سے کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپؑ نے فرمایا: رسول اللہؐ فرماتے تھے:

کُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌّ وَ کُلُّّ مُسْکِرٍ خَمْرٌ ۔ (الکافی ۶: ۴۰۸)

ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور ہر نشہ آور چیز شراب ہے۔

شراب حرام ہے، خواہ اس کی مقدار تھوڑی ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپؑ فرمایا:

فَمَا اَسْکَرَ کَثِیْرُہُ فَقَلِیْلُہُ حَرَامٌ (الکافی ۶: ۴۰۸)

ہر وہ چیز جس کی کثیر مقدار نشہ آور ہو، اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔

۲۔ وَ الۡمَیۡسِرُ: جوا کھیلنا ایک غیر پیداواری عمل ہونے کے ساتھ معاشرے میں بد امنی، نفرت اور جرائم کا سبب بھی ہے اور ایک نہایت غیر منطقی، غیر انسانی اور غیر اخلاقی عمل ہے کہ ایک شخص بلا استحقاق کسی دوسرے کی دو لت پر قابض ہو جائے۔ جس مال و دولت کو سالہا سال کی جفاکشی سے کمایا ہے، چند لمحوں میں دوسرے کے ہاتھ میں چلی جائے اور ایک حسرت اس کے عوض میں مل جائے۔

۳۔ وَ الۡاَنۡصَابُ: عرب جاہلیت میں جن پتھروں کی پوجا کرتے تھے، ان کو اَنصاب کہتے ہیں۔

۴۔ وَ الۡاَزۡلَامُ: زلم کی جمع ہے۔ یہ اس تیر کو کہتے ہیں جس کے ذریعے عرب جاہلیت کے دور میں قسمت آزمائی کرتے اور فال نکالتے تھے۔

اس آیت میں شراب اور جوئے کے دنیاوی اور اخروی چند مضرات بیان کیے ہیں:

i۔ شراب اور جوا ناپاک اور فکری پاکیزگی اور نفس کی طہارت کے خلاف ہیں۔

ii۔ عمل شیطان ہیں، جو ہر قسم کی اخلاقی و انسانی قدروں سے دور ہیں۔

iii۔ اِنَّمَا یُرِیۡدُ الشَّیۡطٰنُ: شراب اور جوا دشمنی اور کینے کا باعث ہیں جو شرابی اور جوئے کے معاشرے میں ہمیشہ مشاہدے میں آتے ہیں۔ جیساکہ قدیم جاہلیت ان دونوں خباثتوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے اخلاق سے دور، غیر انسانی قباحتوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گری ہوئی تھی، ایسے ہی آج کل کی جدید جاہلیت بھی انہی دو خباثتوں کی وجہ سے تمام تر انسانی و اخلاقی قدروں سے محروم ہو چکی ہے۔

iv۔ وَ یَصُدَّکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ: شراب انسان کو ذکر خدا اور نماز سے روک دیتی ہے: وَ لَذِکۡرُ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ۔۔۔۔ (۲۹ عنکبوت: ۴۵) ذکر خدا انسانی قدروں کے احیاء کے لیے بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکۡرِیۡ ۔ (۲۰ طہٰ : ۱۴) نماز ذکر خدا کی اکمل فرد، دین کا ستون، مومن کی معراج اور عبودیت و بندگی کی روح ہے اور کمال مطلق کی بندگی، بندے کا کمال ہے۔ کیونکہ کمال کا ادراک و اعتراف دلیل ہے اس بات پر کہ اعتراف و ادراک کنندہ ان قدروں کا مالک ہے۔ ذکر خدا سے روکنے کا مطلب یہ ہے کہ رب کو مطلق طور پر فراموش کر دیا جائے اور جو اللہ کو یاد نہیں کرتا اور فراموش کرتا ہے، وہ دنیا میں فکری و عقلی عدم توازن کا شکار ہو کر ایک اضطراب و پریشانی کے دنیاوی جہنم میں جلتا ہے:

وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا ۔۔۔۔ (۲۰ طہٰ: ۱۲۴)

اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی ۔۔۔۔

فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّنۡتَہُوۡنَ: کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟ اس لہجے سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اس سے پہلے شراب کی ممنوعیت کی چنداں پرواہ نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد لوگوں نے کہا: ہم باز آگئے۔ حضرت عمر نے فرمایا: انتہینا انتہینا ہم باز آگئے، ہم باز آ گئے ۔ (ابن جریر طبری)

دریا بادی اس جگہ لکھتے ہیں:

کیسا نظام تھا بارگاہ نبوت کا اور کیسی زبردست اصلاحی قوت تھی عرب کے اس اُمی حکیم کی کہ دم کے دم میں پرانے اور عمر بھر کے شرابیوں، جواریوں کو پاکباز و متقی بلکہ پاکبازوں اور صالحین کا سردار بنا دیا۔

احادیث

امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے:

مَا بَعَثَ اللّٰہُ نَبِیّاً اِلَّا بِتَحْرِیمِ الْخَمْرِ ۔۔۔۔ (التہذیب ۹: ۱۰۲)

اللہ نے تمام انبیاء کو شراب کی حرمت کے حکم کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔

اہم نکات

۱۔ فلاح و نجات، ناپاکی اور عمل شیطان سے اجتناب کرنے میں ہے۔

۲۔ مسلمانوں میں بغض و عداوت شیطان ہی کی طرف سے پھیلتی ہے۔

۳۔ ذکر خدا اور نماز سے باز رکھنے والی چیزیں شیطانی عمل ہیں۔


آیات 90 - 91