آیت 100
 

قُلۡ لَّا یَسۡتَوِی الۡخَبِیۡثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوۡ اَعۡجَبَکَ کَثۡرَۃُ الۡخَبِیۡثِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ﴿۱۰۰﴾٪

۱۰۰۔ (اے رسول) کہدیجئے: ناپاک اور پاک برابر نہیں ہو سکتے خواہ ناپاکی کی فراوانی تمہیں بھلی لگے، پس اے صاحبان عقل اللہ کی نافرمانی سے بچو شاید تمہیں نجات مل جائے ۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ لَّا یَسۡتَوِی: دین اور شریعت امر واقع اور حقائق پر مبنی قدروں پر استوار ہے اور حقیقت یہ ہے کہ پاک اور ناپاک یکساں نہیں ہو سکتے، خواہ حقائق میں ہوں یا کردار و صفات میں۔ مثلاً حلال و حرام، مفید و مضر، مؤمن و کافر، عادل و ظالم، مصلح و مفسد اور عالم و جاہل یکساں نہیں ہو سکتے۔

۲۔ وَ لَوۡ اَعۡجَبَکَ کَثۡرَۃُ الۡخَبِیۡثِ: خواہ ناپاک کی کثرت اور فراوانی تم کو بھلی لگے۔ دین اسلام طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام قرار دیتا ہے، لہٰذا جو چیز حقیقت میں ناپاک ہے، وہ ہمیشہ ناپاک ہے۔ کثرت و قلت کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے اور جو چیز پاک ہے، وہ ہمیشہ پاک ہے، خواہ وہ حقیر و قلیل ہی کیوں نہ ہو۔ لہٰذا عقل سے خطاب کر کے فرمایا کہ کثرت کو معیار نہ بناؤ بلکہ اقدار کو معیار بناؤ۔

۳۔ فَاتَّقُوا اللّٰہَ: صاحبان عقل کو مخاطب قرار دے کر فرمایا: تم کثرت کو معیار نہ بناؤ اور حقائق کو معیاربناؤ۔

۴۔ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ: تمہاری کامیابی حقیقت بینی کے ساتھ مربوط ہے۔

اہم نکات

۱۔ سطحی سوچ رکھنے والے کثرت سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔

۲۔جب کہ عقل والے قدروں کی پاسداری کرتے ہیں: فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ ۔۔۔۔

۳۔محسوس پرست تعداد دیکھتے ہیں اور عاقل اقدار۔


آیت 100