اُولٰٓئِکَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ۫ وَ لَا یَجِدُوۡنَ عَنۡہَا مَحِیۡصًا﴿۱۲۱﴾

۱۲۱۔یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ اس سے بچ نکلنے کی کوئی جگہ نہیں پائیں گے ۔

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدۡخِلُہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقًّا ؕ وَ مَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیۡلًا﴿۱۲۲﴾

۱۲۲۔اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں عنقریب ہم انہیں ایسی جنتوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، وہ وہاں ابد تک ہمیشہ رہیں گے، اللہ کا سچا وعدہ ہے اور بھلا اللہ سے بڑھ کر بات کا سچا کون ہو سکتا ہے؟

لَیۡسَ بِاَمَانِیِّکُمۡ وَ لَاۤ اَمَانِیِّ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ ؕ مَنۡ یَّعۡمَلۡ سُوۡٓءًا یُّجۡزَ بِہٖ ۙ وَ لَا یَجِدۡ لَہٗ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیۡرًا﴿۱۲۳﴾

۱۲۳۔ نہ تمہاری آرزوؤں سے (بات بنتی ہے) اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں سے، جو برائی کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا اور اللہ کے سوا نہ اسے کوئی کارساز میسر ہو گا اور نہ کوئی مددگار۔

123۔ اس آیت میں نہایت اہمیت کے حامل اہم نکتے کی وضاحت فرمائی ہے کہ مذہب صرف آرزوؤں کا نام نہیں ہے، جیسا کہ دین کے تاجروں، جاہلوں اور دین دشمنوں کا خیال ہے۔ اس آیت میں مسلمانوں سے خطاب کر کے فرمایا: تمام ادیان کا دار و مدار عمل پر ہے۔ اگر کوئی برائی کرتا ہے تو اس کی سزا بھگتنا ہو گی، خواہ وہ مسلم ہو یا اہل کتاب۔

وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ وَ لَا یُظۡلَمُوۡنَ نَقِیۡرًا﴿۱۲۴﴾

۱۲۴۔ اور جو نیک اعمال بجا لائے خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو(سب) جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

124۔ عمل صالح کی جزا پانے میں مرد و زن میں کوئی امتیاز نہیں ہے، البتہ ایمان شرط ہے۔ کیونکہ عمل صالح بجا لانے والا اگر مومن نہیں ہے تو اس کے عمل میں حسن نہیں آ سکتا، کیونکہ غیر مومن میں حسن فاعلی نہیں ہے۔

وَ مَنۡ اَحۡسَنُ دِیۡنًا مِّمَّنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ وَّ اتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ اتَّخَذَ اللّٰہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا﴿۱۲۵﴾

۱۲۵۔ اور دین میں اس سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے جس نے نیک کردار بن کر اپنے وجود کو اللہ کے سپرد کیا اور یکسوئی کے ساتھ ملت ابراہیمی کی اتباع کی؟ اور ابراہیم کو تو اللہ نے اپنا دوست بنایا ہے۔

وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ مُّحِیۡطًا﴿۱۲۶﴾٪

۱۲۶۔ اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کا ہے اور اللہ ہر چیز پر خوب احاطہ رکھنے والا ہے۔

125۔ 126۔ سابقہ آیت میں ارشاد فرمایا: تمام ادیان کا دار و مدار عمل پر ہے، صرف آرزوؤں سے بات نہیں بنتی۔ اس آیت میں فرمایا کہ عمل کے لیے دین حق کی اتباع ضروری ہے اور وہ دین حق ملت ابراہیمی کی اتباع ہے۔ یہاں ایمان و عمل اور ادیان الٰہی سے متمسک رہنے کی صورت بیان فرمائی: 1۔ انسان اپنے وجود کو اللہ کے سپرد کر دے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ یہ ایک ایسا مؤقف ہے کہ جس کے بغیر کوئی نیک عمل قابل قبول نہیں ہے۔ 2۔ اس درست مؤقف پر آنے کے بعد نیک کردار بن جانا ممکن ہوتا ہے۔ 3۔ ادیان الٰہی سے متمسک رہنے کے لیے اپنے آپ کو اس سلسلے کے ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام سے مربوط رکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے اپنا خلیل بنایا ہے اور اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کسی احتیاج اور ضرورت مندی کے تحت خلیل نہیں بنایا۔ وہ آسمانوں اور زمین کا مالک ہے نیز ابراہیم علیہ السلام کو مقام خلت پر فائز کرنے میں کسی قسم کی دیگر قدروں کا دخل نہیں ہو سکتا، کیونکہ اللہ ہر چیز پر احاطہ رکھنے والا ہے۔ بلکہ ابراہیم علیہ السلام کو الٰہی اقدار کے تحت خلیل بنایا ہے۔

وَ یَسۡتَفۡتُوۡنَکَ فِی النِّسَآءِ ؕ قُلِ اللّٰہُ یُفۡتِیۡکُمۡ فِیۡہِنَّ ۙ وَ مَا یُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فِی الۡکِتٰبِ فِیۡ یَتٰمَی النِّسَآءِ الّٰتِیۡ لَاتُؤۡ تُوۡنَہُنَّ مَا کُتِبَ لَہُنَّ وَ تَرۡغَبُوۡنَ اَنۡ تَنۡکِحُوۡہُنَّ وَ الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الۡوِلۡدَانِ ۙ وَ اَنۡ تَقُوۡمُوۡا لِلۡیَتٰمٰی بِالۡقِسۡطِ ؕ وَ مَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِہٖ عَلِیۡمًا﴿۱۲۷﴾

۱۲۷۔اور لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، کہدیجئے: اللہ تمہیں ان کے بارے میں حکم دیتا ہے اور کتاب میں تمہارے لیے جو حکم بیان کیا جاتا ہے وہ ان یتیم عورتوں کے متعلق ہے جن کا مقررہ حق تم انہیں ادا نہیں کرتے اور ان سے نکاح بھی کرنا چاہتے ہو اور ان بچوں کے متعلق ہے جو بے بس ہیں اور یہ (حکم بھی دیتا ہے) کہ یتیموں کے بارے میں انصاف کرو اور تم بھلائی کا جو کام بھی انجام دو گے تو اللہ اس سے خوب آگاہ ہے۔

127۔ جواب سے سوال کی نوعیت واضح ہو جاتی ہے کہ سوال یتیم بچیوں، کمزور بچوں اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں ہے کیونکہ جاہلیت میں عورتوں اور بچوں کو یہ کہ کر ارث نہیں دیتے تھے کہ وہ جنگوں میں شرکت نہیں کر سکتے۔ مَا کُتِبَ لَہُنَّ سے مراد ہے: جو ارث ان کے لیے مقرر ہے۔ وَ تَرۡغَبُوۡنَ سے مراد یہ ہے: تم ان لڑکیوں سے نکاح کرنے کی رغبت رکھتے ہو اور ان کے جمال و مال سے لطف اندوز ہوتے ہو لیکن انہیں مہر و ارث سے محروم کرتے ہو۔ چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ جاہلیت میں خوبصورت لڑکیوں سے نکاح کرتے اور ارث و نفقہ اور مہر نہیں دیتے تھے اور اگر بدصورت ہوتیں تو نہ خود نکاح کرتے نہ کسی اور کو نکاح کرنے دیتے تھے۔

وَ اِنِ امۡرَاَۃٌ خَافَتۡ مِنۡۢ بَعۡلِہَا نُشُوۡزًا اَوۡ اِعۡرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَاۤ اَنۡ یُّصۡلِحَا بَیۡنَہُمَا صُلۡحًا ؕ وَ الصُّلۡحُ خَیۡرٌ ؕ وَ اُحۡضِرَتِ الۡاَنۡفُسُ الشُّحَّ ؕ وَ اِنۡ تُحۡسِنُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا﴿۱۲۸﴾

۱۲۸۔اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے بے اعتدالی یا بے رخی کا اندیشہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں کہ دونوں آپس میں بہتر طریقے سے مصالحت کر لیں اور صلح تو بہرحال بہتر ہی ہے اور ہر نفس کو بخل کے قریب کر دیا گیا ہے، لیکن اگر تم نیکی کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو اللہ تمہارے سارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔

128۔ زمانہ جاہلیت میں ازدواج کی تعداد غیر محدود تھی اور بیویوں کے لیے کوئی حقوق بھی متعین نہ تھے۔ اسلام نے اولاً تو تعداد کو محدود کر دیا اور ثانیاً یہ کہ ان کے درمیان عدل کو لازمی قرار دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ اگر کسی شخص کی بیوی بانجھ ہے یا زن و شوہر کے تعلقات قائم رکھنے کے قابل نہیں ہے یا دائمی مریض ہے یا دیگر عوامل کی بنا پر وہ شخص دوسری شادی کرتا ہے اور پہلی بیوی کی طرف کماحقہ مائل نہیں ہو سکتا تو اس صورت میں بیویوں میں عدل و انصاف قائم رکھنے کا حل کیا ہے؟ آیت ایسی حالت میں مصالحت کا حل پیش کرتی ہے کہ عورت اپنے حقوق میں سے کچھ مقدار سے دستبردار ہو جائے اور مرد باقی حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے۔

وَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعُوۡۤا اَنۡ تَعۡدِلُوۡا بَیۡنَ النِّسَآءِ وَ لَوۡ حَرَصۡتُمۡ فَلَا تَمِیۡلُوۡا کُلَّ الۡمَیۡلِ فَتَذَرُوۡہَا کَالۡمُعَلَّقَۃِ ؕ وَ اِنۡ تُصۡلِحُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿۱۲۹﴾

۱۲۹۔ اور تم بیویوں کے درمیان پورا عدل قائم نہ کر سکو گے خواہ تم کتنا ہی چاہو، لیکن ایک طرف اتنے نہ جھک جاؤ کہ (دوسری کو) معلق کی طرح چھوڑ دو اور اگر تم اصلاح کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو اللہ یقینا درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

129۔ ایک صحت مند خوبصورت نیک خصلت عورت اور ایک دائم المرض، بدشکل اور بدخصلت عورت کے درمیان قلبی رجحان کو برابر رکھنا انسان کے لیے ممکن نہیں ہے لیکن عملی طور پر نان و نفقہ اور راتوں کی تقسیم وغیرہ میں مساوات ممکن ہے۔ آیت میں یہی حکم ہے کہ عملاً ایک طرف اتنا نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو معلق چھوڑ دو۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سورے کی ابتداء میں فرمایا: فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً یعنی اگر عدل قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی زوجہ پر اکتفا کرو۔ اس آیت میں فرمایا: وَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعُوۡۤا اَنۡ تَعۡدِلُوۡا بَیۡنَ النِّسَآءِ بیویوں کے درمیان عدل قائم کرنے پر قادر نہ ہو سکو گے۔ ان دو آیات کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ ایک ہی شادی کی اجازت ہے۔ جواب یہ ہے کہ نفقہ و زوجیت میں عدل نہ کر سکو تو ایک پر اکتفا کرو۔ جبکہ دوسری آیت میں قلبی محبت مراد ہے کہ تم ان میں مساوات قائم نہیں رکھ سکو گے۔ چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہی جواب وارد ہوا ہے۔

وَ اِنۡ یَّتَفَرَّقَا یُغۡنِ اللّٰہُ کُلًّا مِّنۡ سَعَتِہٖ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ وَاسِعًا حَکِیۡمًا﴿۱۳۰﴾

۱۳۰۔اور اگر میاں بیوی دونوں نے علیحدگی اختیار کی تو اللہ اپنی وسیع قدرت سے ہر ایک کو بے نیاز کر دے گا اور اللہ بڑی وسعت والا، حکمت والا ہے۔

130۔ اگر مصالحت کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے تو معلق چھوڑنے سے بہتر یہ ہے کہ اسے طلاق دے دی جائے۔ کیونکہ طلاق بھی نہ دے اور حقوق بھی نہ دے تو یہ بیچاری نہ زوجہ رہتی ہے، نہ بیوہ۔ طلاق کی صورت میں عورت آزاد ہو جاتی ہے اور اللہ اس کے لیے کوئی راہ کھول دے گا۔