تعدد زوجات اور عدل کی شرط


وَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعُوۡۤا اَنۡ تَعۡدِلُوۡا بَیۡنَ النِّسَآءِ وَ لَوۡ حَرَصۡتُمۡ فَلَا تَمِیۡلُوۡا کُلَّ الۡمَیۡلِ فَتَذَرُوۡہَا کَالۡمُعَلَّقَۃِ ؕ وَ اِنۡ تُصۡلِحُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿۱۲۹﴾

۱۲۹۔ اور تم بیویوں کے درمیان پورا عدل قائم نہ کر سکو گے خواہ تم کتنا ہی چاہو، لیکن ایک طرف اتنے نہ جھک جاؤ کہ (دوسری کو) معلق کی طرح چھوڑ دو اور اگر تم اصلاح کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو اللہ یقینا درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

129۔ ایک صحت مند خوبصورت نیک خصلت عورت اور ایک دائم المرض، بدشکل اور بدخصلت عورت کے درمیان قلبی رجحان کو برابر رکھنا انسان کے لیے ممکن نہیں ہے لیکن عملی طور پر نان و نفقہ اور راتوں کی تقسیم وغیرہ میں مساوات ممکن ہے۔ آیت میں یہی حکم ہے کہ عملاً ایک طرف اتنا نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو معلق چھوڑ دو۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سورے کی ابتداء میں فرمایا: فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً یعنی اگر عدل قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی زوجہ پر اکتفا کرو۔ اس آیت میں فرمایا: وَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعُوۡۤا اَنۡ تَعۡدِلُوۡا بَیۡنَ النِّسَآءِ بیویوں کے درمیان عدل قائم کرنے پر قادر نہ ہو سکو گے۔ ان دو آیات کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ ایک ہی شادی کی اجازت ہے۔ جواب یہ ہے کہ نفقہ و زوجیت میں عدل نہ کر سکو تو ایک پر اکتفا کرو۔ جبکہ دوسری آیت میں قلبی محبت مراد ہے کہ تم ان میں مساوات قائم نہیں رکھ سکو گے۔ چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہی جواب وارد ہوا ہے۔