وَ اِنِ امۡرَاَۃٌ خَافَتۡ مِنۡۢ بَعۡلِہَا نُشُوۡزًا اَوۡ اِعۡرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَاۤ اَنۡ یُّصۡلِحَا بَیۡنَہُمَا صُلۡحًا ؕ وَ الصُّلۡحُ خَیۡرٌ ؕ وَ اُحۡضِرَتِ الۡاَنۡفُسُ الشُّحَّ ؕ وَ اِنۡ تُحۡسِنُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا﴿۱۲۸﴾

۱۲۸۔اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے بے اعتدالی یا بے رخی کا اندیشہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں کہ دونوں آپس میں بہتر طریقے سے مصالحت کر لیں اور صلح تو بہرحال بہتر ہی ہے اور ہر نفس کو بخل کے قریب کر دیا گیا ہے، لیکن اگر تم نیکی کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو اللہ تمہارے سارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔

128۔ زمانہ جاہلیت میں ازدواج کی تعداد غیر محدود تھی اور بیویوں کے لیے کوئی حقوق بھی متعین نہ تھے۔ اسلام نے اولاً تو تعداد کو محدود کر دیا اور ثانیاً یہ کہ ان کے درمیان عدل کو لازمی قرار دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ اگر کسی شخص کی بیوی بانجھ ہے یا زن و شوہر کے تعلقات قائم رکھنے کے قابل نہیں ہے یا دائمی مریض ہے یا دیگر عوامل کی بنا پر وہ شخص دوسری شادی کرتا ہے اور پہلی بیوی کی طرف کماحقہ مائل نہیں ہو سکتا تو اس صورت میں بیویوں میں عدل و انصاف قائم رکھنے کا حل کیا ہے؟ آیت ایسی حالت میں مصالحت کا حل پیش کرتی ہے کہ عورت اپنے حقوق میں سے کچھ مقدار سے دستبردار ہو جائے اور مرد باقی حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے۔