وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ مُّحِیۡطًا﴿۱۲۶﴾٪

۱۲۶۔ اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کا ہے اور اللہ ہر چیز پر خوب احاطہ رکھنے والا ہے۔

125۔ 126۔ سابقہ آیت میں ارشاد فرمایا: تمام ادیان کا دار و مدار عمل پر ہے، صرف آرزوؤں سے بات نہیں بنتی۔ اس آیت میں فرمایا کہ عمل کے لیے دین حق کی اتباع ضروری ہے اور وہ دین حق ملت ابراہیمی کی اتباع ہے۔ یہاں ایمان و عمل اور ادیان الٰہی سے متمسک رہنے کی صورت بیان فرمائی: 1۔ انسان اپنے وجود کو اللہ کے سپرد کر دے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ یہ ایک ایسا مؤقف ہے کہ جس کے بغیر کوئی نیک عمل قابل قبول نہیں ہے۔ 2۔ اس درست مؤقف پر آنے کے بعد نیک کردار بن جانا ممکن ہوتا ہے۔ 3۔ ادیان الٰہی سے متمسک رہنے کے لیے اپنے آپ کو اس سلسلے کے ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام سے مربوط رکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے اپنا خلیل بنایا ہے اور اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کسی احتیاج اور ضرورت مندی کے تحت خلیل نہیں بنایا۔ وہ آسمانوں اور زمین کا مالک ہے نیز ابراہیم علیہ السلام کو مقام خلت پر فائز کرنے میں کسی قسم کی دیگر قدروں کا دخل نہیں ہو سکتا، کیونکہ اللہ ہر چیز پر احاطہ رکھنے والا ہے۔ بلکہ ابراہیم علیہ السلام کو الٰہی اقدار کے تحت خلیل بنایا ہے۔