وَ مَنۡ یَّکۡسِبۡ اِثۡمًا فَاِنَّمَا یَکۡسِبُہٗ عَلٰی نَفۡسِہٖ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا﴿۱۱۱﴾

۱۱۱۔ اور جو برائی کا ارتکاب کرتا ہے وہ اپنے لیے وبال کسب کرتا ہے اور اللہ تو بڑا علم والا، حکمت والا ہے۔

وَ مَنۡ یَّکۡسِبۡ خَطِیۡٓىـَٔۃً اَوۡ اِثۡمًا ثُمَّ یَرۡمِ بِہٖ بَرِیۡٓــًٔا فَقَدِ احۡتَمَلَ بُہۡتَانًا وَّ اِثۡمًا مُّبِیۡنًا﴿۱۱۲﴾٪

۱۱۲۔ اور جس نے خطا یا گناہ کر کے اسے کسی بے گناہ کے سر تھوپ دیا تو یقینا اس نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھایا۔

112۔ خواہ وہ بے گناہ جس کے سر پر گناہ تھوپ دیا جائے یہودی ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام انسانی اقدار کے حوالے سے تمام انسانوں کو مساوی حقوق دیتا ہے اور تمام انسان اسلام کے نزدیک محترم ہیں بشرطیکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کسی جارحیت میں ملوث نہ ہوں۔

اس آیت کا سبب نزول گرچہ خاص واقعہ ہے لیکن اس کا اطلاق عام اور کلی ہے جو تمام لوگوں کے لیے ہے، لہٰذا اس آیت سے بہتان کے عظیم گناہ ہونے کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہتان کو گناہ تصور ہی نہیں کیا جاتا، خصوصاً سیاست میں تو بہتان کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔

وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکَ وَ رَحۡمَتُہٗ لَہَمَّتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ اَنۡ یُّضِلُّوۡکَ ؕ وَ مَا یُضِلُّوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَضُرُّوۡنَکَ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ وَ اَنۡزَلَ اللّٰہُ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ عَلَّمَکَ مَا لَمۡ تَکُنۡ تَعۡلَمُ ؕ وَ کَانَ فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا﴿۱۱۳﴾ ۞ؓ

۱۱۳۔ اور (اے رسول) اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت آپ کے شامل حال نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گروہ نے تو آپ کو غلطی میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا تھا حالانکہ وہ خود کو ہی غلطی میں ڈالتے ہیں اور وہ آپ کا تو کوئی نقصان نہیں کر سکتے اور اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت نازل کی اور آپ کو ان باتوں کی تعلیم دی جنہیں آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔

113۔ وَ عَلَّمَکَ : اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی طرف سے کتاب و حکمت کے علاوہ بھی تعلیم کے لیے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس خصوصی ذرائع موجود تھے، جن کی وجہ سے رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علم و معرفت اور کشف حقائق کی اس منزل پر فائز تھے جن کے بعد خلاف عصمت کسی غلطی کے سرزد ہونے کا امکان نہیں رہتا۔ چنانچہ علم و یقین کا نتیجہ عصمت ہے۔ البتہ علم و یقین حاصل ہونے کے بعد عصمت قائم رکھنے پر مجبور بھی نہیں ہوتے، بلکہ یہاں عزم و ارادہ، نفس کی پاکیزگی اور محبت الٰہی کی وجہ سے اپنے اختیار سے عصمت پر قائم رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے معصوم کی عصمت و فضیلت ثابت ہوتی ہے۔

لَا خَیۡرَ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنۡ نَّجۡوٰىہُمۡ اِلَّا مَنۡ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوۡ مَعۡرُوۡفٍ اَوۡ اِصۡلَاحٍۭ بَیۡنَ النَّاسِ ؕ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ فَسَوۡفَ نُؤۡتِیۡـہِ اَجۡرًا عَظِیۡمًا﴿۱۱۴﴾

۱۱۴۔ ان لوگوں کی بیشتر سرگوشیوں میں کوئی خیر نہیں ہے مگر یہ کہ کوئی صدقہ، نیکی یا لوگوں میں اصلاح کی تلقین کرے اور جو شخص اللہ کی خوشنودی کے لیے ایسا کرے تو اسے عنقریب ہم اجر عظیم عطا کریں گے۔

114۔ جو کام اللہ کی خوشنودی کے لیے انجام دیا جائے اس کا ثواب ہے۔ یعنی عمل کا نیک ہونا کافی نہیں ہے۔عمل کرنے والے کا نیک ہونا بھی ضروری ہے۔ ایک چور مال حرام سے صدقہ دیتا ہے اور ایک ڈاکو رفاہی کام کرتا ہے تو ان اعمال کو نیک تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہاں سے اس سوال کا، جو اکثر لوگ اٹھاتے ہیں، جواب بھی مل جاتا ہے کہ کیا ان سائنسدانوں کو کوئی ثواب ملے گا جنہوں نے انسانیت کے لیے بہت سی خدمات انجام دی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگروہ انکار خدا کے جرم میں مبتلا ہیں تو ان کی نیکی کا کوئی ثواب نہیں ہو گا۔

وَ مَنۡ یُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الۡہُدٰی وَ یَتَّبِعۡ غَیۡرَ سَبِیۡلِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصۡلِہٖ جَہَنَّمَ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا﴿۱۱۵﴾٪

۱۱۵۔ اور جو شخص ہدایت کے واضح ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور ہم اسے جہنم میں جھلسا دیں گے جو بدترین ٹھکانا ہے۔

115۔ سَبِیۡلِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ سے کچھ حضرات نے حجیت اجماع ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو کسی صورت بھی درست نہیں ہے، کیونکہ یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عدم مخالفت اور اتباع میں مومنین نے جو روش بنائی ہے اس سے ہٹ کر کوئی اور روش بنانے والا جہنمی ہے جب کہ اجماع خود مومنین کی اپنی روش سے متعلق ہے۔ صاحب تفسیر المنار اس جگہ فرماتے ہیں: آیت عصرِ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مومنین کے راستے کے بارے میں بحث کرتی ہے، جبکہ اجماع عصرِ رسالت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد کسی مسئلے پر امت کے مجتہدین کے اتفاق کا نام ہے۔

نُصۡلِہٖ : اَلصَّلْوُ ۔ آگ میں جھلسانے کو کہتے ہیں۔ صلی اللحم فی النار کے معنی القاہ للاحراق آگ میں تپانے کے معنوں میں ہیں۔ اکثر نے اس کا ترجمہ داخل کرنے سے کیا ہے جو اشتباہ ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا﴿۱۱۶﴾

۱۱۶۔ اللہ صرف شرک سے درگزر نہیں کرتا اس کے علاوہ جس کو چاہے معاف کر دیتا ہے اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا وہ گمراہی میں دور تک چلا گیا۔

اِنۡ یَّدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِلَّاۤ اِنٰثًا ۚ وَ اِنۡ یَّدۡعُوۡنَ اِلَّا شَیۡطٰنًا مَّرِیۡدًا﴿۱۱۷﴾ۙ

۱۱۷۔ وہ اللہ کے سوا صرف مؤنث صفت چیزوں کو پکارتے ہیں اور وہ تو بس باغی شیطان ہی کو پکارتے ہیں۔

117۔ تمام حیوانات میں مادہ بہ نسبت نر کے کمزور ہوتی ہے اس لیے کمزور کو اُناث کہتے ہیں۔ چنانچہ کمزور لوہے کو حدید انیث کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے اس آیت کا یہ مفہوم بنتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسری کمزور، بے طاقت چیزوں کو پکارتے ہیں نیز مشرکین اپنے معبود فرشتوں کو لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے تھے: لَيُسَمُّوْنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃَ تَسْمِيَۃَ الْاُنْثٰى ۔ (نجم: 27)

لَّعَنَہُ اللّٰہُ ۘ وَ قَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنۡ عِبَادِکَ نَصِیۡبًا مَّفۡرُوۡضًا﴿۱۱۸﴾ۙ

۱۱۸۔ اللہ نے اس پر لعنت کی اور اس نے اللہ سے کہا: میں تیرے بندوں میں سے ایک مقررہ حصہ ضرور لے کر رہوں گا۔

118۔ شیطان بندوں سے تمام چیزوں میں حصہ لیتا ہے۔ مال و اولاد میں، حتیٰ عبادت میں۔ جس قدر خلوص کم ہو گا، اسی مقدار میں شیطان کا حصہ زیادہ ہو گا۔

وَّ لَاُضِلَّنَّہُمۡ وَ لَاُمَنِّیَنَّہُمۡ وَ لَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الۡاَنۡعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلۡقَ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّخِذِ الشَّیۡطٰنَ وَلِیًّا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَقَدۡ خَسِرَ خُسۡرَانًا مُّبِیۡنًا ﴿۱۱۹﴾ؕ

۱۱۹۔ اور میں انہیں ضرور گمراہ کروں گا اور انہیں آرزوؤں میں ضرور مبتلا رکھوں گا اور انہیں حکم دوں گا تو وہ ضرور جانوروں کے کان پھاڑیں گے اور میں انہیں حکم دوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورت میں ضرور رد و بدل کریں گے اور جس نے اللہ کے سوا شیطان کو اپنا سرپرست بنا لیا پس یقینا وہ صریح نقصان میں رہے گا۔

119۔ اس آیت میں شیطان کے گمراہ کن حربوں کا ذکر ہے: 1۔ شیطان بندوں کو آرزوؤں میں الجھا کر یاد خدا سے غافل کر دیتا ہے۔ 2۔ وہ توہمات میں ڈال کر اللہ کی انسان ساز دستور حیات شریعت سے لوگوں کو دور کرتا ہے کہ اونٹنی جب پانچ یا دس بچے جنم لیتی تو اس کے کان پھاڑ کر دیوتا کے نام کر دیتے اور اس سے کام لینے کو حرام سمجھتے تھے۔ 3۔ وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورت اور خدائی ساخت میں تبدیلی کر دیتا ہے۔ اس آیت سے کلوننگ کی حرمت پر استدلال کیا جاتا ہے: کلوننگ خلق اللہ میں تغیر ہے۔ کیونکہ اللہ تو جرثومۂ پدر اور تخم مادر نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ (مخلوط نطفہ) سے انسان کی تخلیق فرماتا ہے۔ جبکہ کلوننگ میں ماں باپ کے اشتراک کے بغیر یکطرفہ طور پر کسی ایک کے سیل سے انسانی تخلیق کا عمل انجام پاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کلوننگ میں جنسی سیل (cell) کی جگہ جسمانی سیل سے کام لیا جاتا ہے۔ کیا یہ عمل جائز ہے یا نہیں؟ تفصیل کے لیے ہماری تفسیر الکوثر جلد دوم صفحہ 372 کا مطالعہ کیجیے۔

یَعِدُہُمۡ وَ یُمَنِّیۡہِمۡ ؕ وَ مَا یَعِدُہُمُ الشَّیۡطٰنُ اِلَّا غُرُوۡرًا﴿۱۲۰﴾

۱۲۰۔وہ انہیں وعدوں اور امیدوں میں الجھاتا ہے اور ان کے ساتھ شیطان کے وعدے بس فریب پر مبنی ہوتے ہیں۔