آیت 129
 

وَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعُوۡۤا اَنۡ تَعۡدِلُوۡا بَیۡنَ النِّسَآءِ وَ لَوۡ حَرَصۡتُمۡ فَلَا تَمِیۡلُوۡا کُلَّ الۡمَیۡلِ فَتَذَرُوۡہَا کَالۡمُعَلَّقَۃِ ؕ وَ اِنۡ تُصۡلِحُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿۱۲۹﴾

۱۲۹۔ اور تم بیویوں کے درمیان پورا عدل قائم نہ کر سکو گے خواہ تم کتنا ہی چاہو، لیکن ایک طرف اتنے نہ جھک جاؤ کہ (دوسری کو) معلق کی طرح چھوڑ دو اور اگر تم اصلاح کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو اللہ یقینا درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

تشریح کلمات

عدل:

( ع د ل ) دو چیزوں کا برابر ہونا۔ عدل صرف محسوس چیزوں کے برابر ہونے کے معنی میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعُوۡۤا: صورت اور سیرت میں فرق کی بنیاد پر انسان متعدد بیویوں میں کماحقہ مساوات قائم رکھ ہی نہیں سکتا۔ ایک خوبصورت ہے، دوسری بد شکل۔ ایک خوش مزاج ہے، دوسری بد مزاج۔ ایک جوان ہے، دوسری سن رسیدہ ۔ ایک صحت مند ہے، دوسری دائم المرض۔ ایسے حالات میں اسلام یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ ان فطری رجحانات کو نابود کر کے دونوں سے یکساں قلبی تعلق قائم رکھو، کیونکہ ایسا کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے۔

۲۔ تَمِیۡلُوۡا کُلَّ الۡمَیۡلِ: اسلام یہاں یہ مطالبہ ضرور کرتا ہے کہ جن امور پر انسان قادر ہے، ان میں عدل و انصاف قائم رکھے۔ مثلاً نان و نفقہ، راتوں کی تقسیم و دیگر حقوق زوجین میں سے جو اس کے اختیار میں ہیں، ان میں عدل قائم رکھے۔ ایسانہ ہو کہ وہ بے چاری خوبصورت نہیں ہے تو انسان بھی نہیں ہے کہ شوہر کی طرف سے نہ تو اسے زوجیت کے حقوق ملیں اور نہ کسی اور سے شادی کر سکے اور اس طرح وہ عملاً بے شوہر ہو کر رہ جائے ۔

ایک اعتراض: اس سورے کی ابتدا میں فرمایا: فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً ’’پھر اگر تمہیں خوف ہو کہ ان میں عدل نہ کر سکوگے تو ایک ہی عورت کافی ہے‘‘ اور اس آیت میں فرمایا کہ عدل قائم کرنے پر تو انسان قادر ہی نہیں ہے، لہٰذا صرف ایک شادی کی اجازت ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ مادہ پرست ابن ابی العوجاء نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد ہشام کو یہی اعتراض پیش کیا تھا۔

جواب: زوجات میں عدل کرنا اور مساویانہ سلوک کرنا ان چیزوں میں واجب ہے جو انسانی عمل سے مربوط ہوں اور ممکن ہو، جیسے نان، نفقہ، راتوں کی تقسیم۔ جب کہ اس آیت میں قلبی رجحان مراد ہے۔

i۔ اگر متعدد زوجات جائز نہیں ہیں تو آیہ: فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ (۴ نساء : ۳) بے معنی ہو جاتی ہے۔

ii۔ آیت کا یہ جملہ: فَلَا تَمِیۡلُوۡا کُلَّ الۡمَیۡلِ ایک بیوی کی طرف اتنے نہ جھک جاؤ۔ اس اعتراض کا مسکت جواب ہے۔

iii۔ خود عصر رسالت مآب (ص) میں عام مسلمانوں کی سیرت بھی ایک واضح دلیل ہے کہ متعدد زوجات پر خود رسول اکرم (ص) کے سامنے عمل ہوتا رہا۔

احادیث

رسالتمآب (ص) سے مروی ہے کہ آپ اپنی ازواج میں مساویانہ تقسیم فرمانے کے بعد فرماتے

تھے:

اللھم ھذا قسمی فیما املک فلا تؤاخذنی فیما تملک و لا املک ۔ (عوالی اللآلی ۲ : ۱۳۴۔ مجمع البیان)

خدایا! یہ تقسیم تو اس چیز میں ہے جو میرے اختیار میں ہے اور جو کچھ تیرے اختیار میں ہے اور میرے اختیارمیں نہیں ہے اس پرمیرا مؤاخذہ نہ فرما۔

واضح رہے یہ دعا ہماری تعلیم کے لیے ہے کہ آداب بندگی یہ ہے کہ جو کوتاہی انسان کے اختیار میں نہ ہو اس کے لیے بھی معافی مانگا کرے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس اعتراض کا یہ جواب فرمایا:

’’اگر عدل نہ کر سکو تو ایک زوجہ پر اکتفا کرو‘‘ میں عدل در نفقہ مراد ہے۔ جب کہ اس آیت میں قلبی محبت مراد ہے۔ (الکافی ۵ : ۳۶۲)

۳۔ وَ اِنۡ تُصۡلِحُوۡا: اگر زوجات کے درمیان تقسیم میں صلح و صفائی کرو اور ان پر زیادتی کرنے سے احتراز کرو تو تم پر اللہ مہربان ہو جائے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔

اہم نکات

۱۔عدل و انصاف عملی کردار سے مربوط ہے، قلبی رجحانات سے نہیں۔


آیت 129