وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ لَقَدۡ وَصَّیۡنَا الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ اِیَّاکُمۡ اَنِ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ وَ اِنۡ تَکۡفُرُوۡا فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَنِیًّا حَمِیۡدًا﴿۱۳۱﴾

۱۳۱۔اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کی ملکیت ہے، بتحقیق ہم نے تم سے پہلے اہل کتاب کو نصیحت کی ہے اور تمہیں بھی یہی نصیحت ہے کہ تقویٰ اختیار کرو اور اگر کفر اختیار کرو گے تو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اس کے قبضۂ قدرت میں ہے اور اللہ بڑا بے نیاز، قابل ستائش ہے۔

وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا﴿۱۳۲﴾

۱۳۲۔اور اللہ ہی ان سب چیزوں کا مالک ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور کفالت کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔

اِنۡ یَّشَاۡ یُذۡہِبۡکُمۡ اَیُّہَا النَّاسُ وَ یَاۡتِ بِاٰخَرِیۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلٰی ذٰلِکَ قَدِیۡرًا﴿۱۳۳﴾

۱۳۳۔ اے لوگو! اگر اللہ چاہے تو تم سب کو فنا کر کے تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے اور اس بات پر تو اللہ خوب قدرت رکھتا ہے۔

مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ ثَوَابَ الدُّنۡیَا فَعِنۡدَ اللّٰہِ ثَوَابُ الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا﴿۱۳۴﴾٪

۱۳۴۔جو(فقط) دنیاوی مفاد کا طالب ہے پس اللہ کے پاس دنیا و آخرت دونوں کا ثواب موجود ہے اور اللہ خوب سننے والا،دیکھنے والا ہے۔

134۔ ان لوگوں کے عقل و شعور کو بیدار کیا جا رہا ہے جو صرف طالب دنیا ہیں۔ تقویٰ اختیار کرنے اور بارگاہ الٰہی میں حاضر رہنے سے دنیا اور آخرت دونوں کی سعادتیں مل سکتی ہیں۔ لیکن یہ لوگ آخرت کی ابدی سعادت کو چھوڑ کر چند دنوں کی دنیاوی زندگی کے عیش و نوش میں بدمست ہیں۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِ الۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ۚ اِنۡ یَّکُنۡ غَنِیًّا اَوۡ فَقِیۡرًا فَاللّٰہُ اَوۡلٰی بِہِمَا ۟ فَلَا تَتَّبِعُوا الۡہَوٰۤی اَنۡ تَعۡدِلُوۡا ۚ وَ اِنۡ تَلۡوٗۤا اَوۡ تُعۡرِضُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا﴿۱۳۵﴾

۱۳۵۔ اے ایمان والو! انصاف کے سچے داعی بن جاؤ اور اللہ کے لیے گواہ بنو اگرچہ تمہاری ذات یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی امیر یا فقیر ہے تو اللہ ان کا بہتر خیرخواہ ہے، لہٰذا تم خواہش نفس کی وجہ سے عدل نہ چھوڑو اور اگر تم نے کج بیانی سے کام لیا یا(گواہی دینے سے) پہلوتہی کی تو جان لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔

135۔ عدل کا انفرادی حکم مختلف آیات میں آیا ہے لیکن اس آیت میں عدل اجتماعی کا حکم ہے کہ عدل و انصاف کے قوام یعنی سچے داعی بن جائیں۔ مومن کا فریضہ فقط یہ نہیں کہ خود عدل و انصاف کرے اور معاشرے میں موجود ظلم و زیادتی سے لاتعلق ہو جائے، بلکہ مؤمنین کی ذمے داری ہے کہ معاشرے میں بھی عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: العدل سائس عام ۔ (روضۃ الواعظین 2:416) عدل ایک جامع نظام ہے۔ عدل اجتماعی کی اہمیت کے بارے میں منقول ہے: وَاِنَّ قُرَّۃِ عَیْنِ الْوُلَاۃِ اسْتِقَامَۃُ الْعَدْلِ فِی الْبِلَادِ ۔ (مستدرک الوسائل 13:164) یعنی حکمرانوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ملک میں عدل و انصاف کا استحکام ہے۔

آیہ شریفہ میں یہ نکات قابل توجہ ہیں: ٭عدل و انصاف کا نظام قائم کرو۔٭ گواہی اللہ ہی کے لیے دیا کرو۔ ٭اپنی ذات یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہو تو بھی سچی گواہی دو۔٭ دولت مندی اور فقیری کا لحاظ نہ کرو۔ کیونکہ عدل و انصاف امیر و غریب دونوں کے مفاد میں ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا﴿۱۳۶﴾

۱۳۶۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے، سچا ایمان لے آؤ اور اس کتاب پر بھی جو اس نے اس سے پہلے نازل کی ہے اور جس نے اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت کا انکار کیا وہ گمراہی میں بہت دور چلا گیا۔

136۔ ایمان والوں سے ایمان کا مطالبہ: اس کی دو تفسیریں ہو سکتی ہیں: ٭اجمالی ایمان لانے والوں کو تفصیلی اور تحقیقی ایمان لانے کا حکم ہے یعنی ان کا ایمان ہنوز سطحی اور اجمالی ہے۔٭ جو اپنے ایمان کے تقاضے پورے نہیں کرتے ان سے خطاب ہے کہ اپنے اعمال و سیرت کو اپنے ایمان سے ہم آہنگ کرو۔ کردار و عمل ہی ایمان کی سچی دلیل ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا ثُمَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا ثُمَّ ازۡدَادُوۡا کُفۡرًا لَّمۡ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغۡفِرَ لَہُمۡ وَ لَا لِیَہۡدِیَہُمۡ سَبِیۡلًا﴿۱۳۷﴾ؕ

۱۳۷۔ جو لوگ ایمان لانے کے بعد پھر کافر ہو گئے پھر ایمان لائے پھر کافر ہو گئے پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے،اللہ انہیں نہ تو معاف کرے گا اور نہ ہی انہیں ہدایت کا راستہ دکھائے گا۔

137۔ سابقہ آیت سے اس آیت کا ربط اس طرح بنتا ہے: ایمان والو! نئے سرے سے پختہ اور سچا ایمان لے آؤ، کیونکہ اگر ایسا نہ ہو گا تو یہ ابن الوقتی اور مفاد کا ایمان کفر میں بدل سکتا ہے اور اگر ایمان کفر میں بدل گیا اور ایمان کے بعد کفر اختیار کر لیا اور دین و ایمان کو کھلونا بنا دیا تو اس ایمان و کفر کے گومگو کا انجام کار کفر پر استقرار ہو گا: ثُمَّ ازۡدَادُوۡا کُفۡرًا ۔ اس صورت میں اللہ کی طرف واپسی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ظاہر ہے کہ اللہ اسے نہیں بخشتا اور نہ اس کی رہنمائی کرتا ہے، جو اس کی طرف آتا ہی نہیں۔

بَشِّرِ الۡمُنٰفِقِیۡنَ بِاَنَّ لَہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمَۨا﴿۱۳۸﴾ۙ

۱۳۸۔ (اے رسول) منافقوں کو دردناک عذاب کا مژدہ سنا دو۔

الَّذِیۡنَ یَتَّخِذُوۡنَ الۡکٰفِرِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ اَیَبۡتَغُوۡنَ عِنۡدَہُمُ الۡعِزَّۃَ فَاِنَّ الۡعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا﴿۱۳۹﴾ؕ

۱۳۹۔ جو ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا حامی بناتے ہیں، کیا یہ لوگ ان سے عزت کی توقع رکھتے ہیں؟ بے شک ساری عزت تو خدا کی ہے۔

139۔ اس آیہ شریفہ میں منافقین کی ایک اہم علامت بیان کی گئی ہے، وہ یہ کہ منافقین اپنا قلبی لگاؤ مومنین کی بجائے کفار سے رکھتے ہیں۔ ایسا وہ اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے وہم و خیال کے مطابق عزت و تمکنت کفار کے ساتھ دوستی رکھنے کی صورت میں مل سکتی ہے۔

مفہوم عزت: عزت ایک ناقابل تسخیر حالت کو کہتے ہیں۔ صاحب عزت مغلوب ہونے سے محفوظ رہتا ہے اور کائنات میں خدا ہی کی ذات مغلوب ہونے سے محفوظ ہے یا وہ جسے وہ مغلوب ہونے سے تحفظ دے۔

وَ قَدۡ نَزَّلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الۡکِتٰبِ اَنۡ اِذَا سَمِعۡتُمۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکۡفَرُ بِہَا وَ یُسۡتَہۡزَاُ بِہَا فَلَا تَقۡعُدُوۡا مَعَہُمۡ حَتّٰی یَخُوۡضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہٖۤ ۫ۖ اِنَّکُمۡ اِذًا مِّثۡلُہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ الۡکٰفِرِیۡنَ فِیۡ جَہَنَّمَ جَمِیۡعَۨا﴿۱۴۰﴾ۙ

۱۴۰۔اور بتحقیق اللہ نے(پہلے) اس کتاب میں تم پر یہ حکم نازل فرمایا کہ جہاں کہیں تم سن رہے ہو کہ اللہ کی آیات کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو تم ان کے ساتھ نہ بیٹھا کرو جب تک وہ کسی دوسری گفتگو میں نہ لگ جائیں ورنہ تم بھی انہی کی طرح کے ہو جاؤ گے، بے شک اللہ تمام منافقین اور کافرین کو جہنم میں یکجا کرنے والا ہے۔

140۔ اگر کسی محفل میں کسی کے دین و عقیدے کا مذاق اڑایا جا رہا ہو اور اس میں اپنے مذہب کے بارے میں حمیت و غیرت نہ ہو تو یہ اس بات کی علامت سمجھی جاتی ہے کہ اس کا دل ایمان سے خالی ہے۔ مکہ کے مشرکین اور مدینہ کے یہود اسلام کا مذاق اڑاتے تھے اور مکہ کے ضعیف الایمان اور مدینہ کے منافقین ایسی محفلوں میں بیٹھ کر ایسی باتوں کا سننا گوارا کرتے تھے۔ ہمارے زمانے میں ہر زمانے کی طرح یہ اصطلاح بدل گئی ہے، چنانچہ اگر کسی کے دل میں اپنے دین و مذہب کے بارے میں غیرت و حمیت نہیں ہے اور وہ ایسی محفلوں میں بیٹھ کر اپنے دین و مذہب کا مذاق اڑانا سن سکتا ہے تو اسے ”روشن خیال“ کہتے ہیں اور مذہبی غیرت و حمیت رکھنے والوں کو ”بنیاد پرست“ کہتے ہیں۔