آیت 124
 

وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ وَ لَا یُظۡلَمُوۡنَ نَقِیۡرًا﴿۱۲۴﴾

۱۲۴۔ اور جو نیک اعمال بجا لائے خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو(سب) جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ: عمل صالح پر مِنْ داخل ہونے سے یہ مطلب بنتا ہے کہ نیکیوں میں سے کچھ حصہ انجام دے تو اللہ اسے جنت میں داخل کر دے گا اور یہ اللہ کے فضل وکرم کی ایک عظیم بشارت ہے۔

۲۔ مِنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی: عمل صالح کی جزا پانے میں مردیا عورت کو کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے۔ اس میں ان قدیم مذاہب و نظریات کی رد ہے جن میں عورت کو جنس کی بنا پر عمل صالح کے اجر و ثواب کا اہل نہیں سمجھتے تھے۔

۳۔ وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ: سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ عمل صالح سے اجر و ثواب کا حقدار اس وقت ہوتا ہے، جب عمل صالح انجام دینے والا مومن بھی ہو۔ کیونکہ اگر عمل صالح انجام د ینے والا مومن نہیں ہے تو اس کے عمل میں تو حسن ہے، لیکن عمل کنندہ میں حسن نہیں ہے۔ ثواب کے لیے حسن فعلی کے ساتھ حسن فاعلی شرط ہے۔ مثلاً ایک شخص حرام کی کمائی سے یتیم کی مالی کفالت کرتا ہے تو اگرچہ یتیم پر رحم کرنا حسن عمل رکھتا ہے لیکن یہ شخص خود حسن فاعلی نہیں رکھتا، اس لیے اسے اس عمل کا ثواب نہیں ملے گا۔ دوسرے لفظوں میں غیر مومن اللہ کے دستور و احکام کا باغی ہے۔ باغی سے اگر کبھی کوئی اچھا کام سرزد ہو بھی جائے اور وہ کام اللہ کے حکم کی تعمیل میں نہ ہو، اپنے باغیانہ انداز فکر کے تحت ہو تو اس کا اس مولیٰ سے کوئی ربط نہ ہو گا جس کے پاس اجر و ثواب ہے۔

اہم نکات

۱۔ ایمان سے عمل کنندہ میں، پھر اس کے عمل میں حسن آتا ہے۔


آیت 124