آیات 119 - 121
 

وَّ لَاُضِلَّنَّہُمۡ وَ لَاُمَنِّیَنَّہُمۡ وَ لَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الۡاَنۡعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلۡقَ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّخِذِ الشَّیۡطٰنَ وَلِیًّا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَقَدۡ خَسِرَ خُسۡرَانًا مُّبِیۡنًا ﴿۱۱۹﴾ؕ

۱۱۹۔ اور میں انہیں ضرور گمراہ کروں گا اور انہیں آرزوؤں میں ضرور مبتلا رکھوں گا اور انہیں حکم دوں گا تو وہ ضرور جانوروں کے کان پھاڑیں گے اور میں انہیں حکم دوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورت میں ضرور رد و بدل کریں گے اور جس نے اللہ کے سوا شیطان کو اپنا سرپرست بنا لیا پس یقینا وہ صریح نقصان میں رہے گا۔

یَعِدُہُمۡ وَ یُمَنِّیۡہِمۡ ؕ وَ مَا یَعِدُہُمُ الشَّیۡطٰنُ اِلَّا غُرُوۡرًا﴿۱۲۰﴾

۱۲۰۔وہ انہیں وعدوں اور امیدوں میں الجھاتا ہے اور ان کے ساتھ شیطان کے وعدے بس فریب پر مبنی ہوتے ہیں۔

اُولٰٓئِکَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ۫ وَ لَا یَجِدُوۡنَ عَنۡہَا مَحِیۡصًا﴿۱۲۱﴾

۱۲۱۔یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ اس سے بچ نکلنے کی کوئی جگہ نہیں پائیں گے ۔

تشریح کلمات

التبتیک:

( ب ت ک ) پھاڑنا یا کاٹنا۔

تفسیر آیات

اس آیت میں شیطان کے گمراہ کن حربوں کا ذکر ہے:

i۔ شیطان بندوں کو آرزؤں میں الجھا کر یاد خدا سے غافل کر دیتا ہے۔

ii۔ لوگوں کو توہمات میں ڈال کر انسان ساز دستور حیات و احکام شریعت سے دور کرتا ہے۔ مثلاً عربوں کی ایک توہم پرستی کی طرف آیت میں اشارہ ہوا ہے کہ اونٹنی جب پانچ یا دس بچے جن لیتی تو وہ اس کے کان پھاڑ کر دیوتا کے نام کر دیتے اور اس سے کام لینا حرام سمجھتے تھے۔

ii۔ اللہ کی بنائی ہوئی صورت اور خدائی ساخت میں رد و بدل کر دیتا ہے۔ مثلاً انسان اور انسانی اعضا و جوارح کو جن اہداف و مقاصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے، ان میں استعمال ہونے نہیں دیتا۔

اگر اس سے تکوینی تغییر مراد لیا جائے تو آپریشن کے ذریعے جنس کی تبدیلی جیسے امور اس میں شامل ہوں گے اور اگر اس سے تشریعی تغییر مراد لیا جائے تو اللہ کے وضع کردہ فطری احکام کی تبدیلی اس میں شامل ہے۔

یَعِدُہُمۡ وَ یُمَنِّیۡہِمۡ: اس آیت میں وہ سبب بیان ہوا ہے، جس کی وجہ سے شیطان سے دوستی کرنے والے خسارے میں رہتے ہیں۔ وہ یہ کہ شیطان ہمیشہ الٰہی دستورحیات اور انسانی و اخلاقی اقدار کے بارے میں انسان کو دھوکے میں مبتلا کرتا ہے۔

انسان کی نفسیاتی کمزوریوں سے شیطان فائدہ اٹھاتا ہے اور اسے امیدوں اور آرزؤں کے ذریعے گمراہ کرتا ہے۔

آیت سے کلوننگ کی حرمت پر استدلال کیا جاتا ہے کہ کلوننگ تخلیقی عمل میں تغییر ہے اور تغییر اس آیت کی رو سے عمل شیطان ہے۔

مناسب ہو گا کہ اس جگہ ہم کلوننگ کے بارے میں ایک مختصر وضاحت پیش کریں، بعد میں ہم آیت کے مفہوم میں بحث کریں گے۔

انسانی تخلیق: انسانی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کا وضع کردہ معمول کچھ اس طرح ہے کہ اس میں مرد و زن دونوں کا اشتراک ہوتا ہے اور اس اشتراک سے وجود میں آنے والا بچہ نہ باپ ہوتا ہے، نہ ماں، بلکہ وہ اپنی شکل و صورت و دیگر خصوصیات میں دونوں سے امتیاز رکھتا ہے۔

مرد و زن کے اشتراک کی صورت: تخلیقی عمل میں مرد و زن کے اشتراک کی صورت اس طرح ہے کہ انسانی تخلیق سیل (Cell) سے ہوتی ہے اور ابتدائی سیل کی فراہمی میں مرد و زن دونوں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ سیل (Cell) کی دو قسمیں ہیں۔ جسمانی سیل اور جنسی سیل۔ جسمانی سیل ایک مستقل سیل ہوتا ہے جس کا مرکزہ 46کروموزوم (Chromosome) پر مشتمل ہوتا ہے۔ جبکہ جنسی سیل مستقل سیل نہیں ہوتا بلکہ نصف سیل ہوتا ہے۔ اس کا مرکزہ صرف 23 کروموزوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس طرح ماں اور باپ کا جنسی سیل یعنی نطفہ پدر اور تخم مادر میں سے ہر ایک 23کروموزم پر مشتمل ہے اور جنسی آمیزش کے ذریعہ 23 کروموزوم مرد اور 23کروموزوم عورت فراہم کرتی ہے۔ جن سے 23+23 = 46کروموزم پر مشتمل ایک مستقل سیل وجود میں آتا ہے۔ یہی سیل آنے والے بچے کی تخلیق کے لیے خشت اول ثابت ہوتا ہے۔ یہ آمیزش رحم میں بھی ہوتی ہے اور رحم سے خارج ٹیسٹ ٹیوب میں بھی۔

یہ ابتدائی سیل اپنی تکمیل کے بعد اپنے آپ کو تقسیم کرتا ہے۔ دو، چار، آٹھ، سولہ، بتیس۔ اس تعداد تک ہر ایک سیل سے ایک ایک بچہ وجود میں آ سکتا ہے یعنی ان 32سیلز میں سے ہر ایک کو جدا جدا سازگار فضا فراہم کی جائے تو 32 جڑواں بچے وجود میں آ سکتے ہیں۔ البتہ 32 کے بعد اور بعض سائنسدانوں کے مطابق 125کے بعد یہ سیلز آپس میں تقسیم کار کرتے ہیں۔ اس تقسیم کار کے بعد ہر سیل اپنے حصے میں آنے والے تخلیقی امور کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اب یہ کل انسانی تخلیق کے لیے بنیادی سیل نہیں رہتے۔ مثلاً اگر اس سیل کے ذمے مغز بنانا آیا ہے تو اب یہ سیل صرف مغز بناتا ہے۔

کلوننگ: اس طریقہ تولید میں مرد و زن کا اشتراک نہیں ہوتا، بلکہ اس میں صرف مرد یا صرف عورت سے ایک مکمل سیل کے لیے ضروری مواد یعنی 46کروموزوم حاصل کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے جنسی سیل کی جگہ جسمانی سیل حاصل کرتے ہیں اور عورت کا ایک تخم بھی حاصل کرتے ہیں۔

اس تخم میں موجود 23کروموزوم کو اس سے خارج کرتے ہیں اور اس خالی تخم کے اندر جسمانی سیل کے 46کروموزوم رکھ دیتے ہیں۔ اس کروموزوم کو اس تخم کے اندر رکھنا اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس سیل کے مرکزہ اور جھلی کے درمیان میں موجود سیال مواد سیل کی تقسیم کے لیے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سیال مواد کو سیٹوپلازم (Cytoplasm) کہتے ہیں۔ یہ سیٹوپلازم اپنے مہمان کروموزوم کو تقسیم کر کے جنین کی تشکیل کا کام شروع کرتا ہے۔ اب یہ بچہ سیل کے مالک کی کاربن کاپی ہو گا۔ کیونکہ اس بچے کے تمام موروثی عناصر اس سیل کے مالک نے فراہم کیے ہیں۔ کلوننگ کی صحیح تصویر سامنے آنے کے بعد سوال اس طرح بنتا ہے۔

کیا انسان کی افزائش نسل کے لیے دو صنفوں (مرد و زن) کی جائز طریقے سے شرکت ضروری ہے یا صرف ایک صنف اس کو انجام دے سکتی ہے؟

یہاں دو نظریے موجود ہیں ایک نظریے کے تحت صرف پہلی صورت جائز ہے، دوسری صورت یعنی کلوننگ جائز نہیں ہے۔ اس عدم جواز کی دو صورتیں ہیں:

i۔ اللہ نے پیدائش انسان کے لیے جو فطری طریقہ وضع کیا ہے، اس میں تغییر جائز نہیں۔

ii۔ کلوننگ کے ذریعے انسان کی پیدائش سے افراد بشر میں شناخت اور امتیاز ختم ہو جاتا ہے، جس سے نسب، میراث، نکاح، معاملات، ڈگریوں، گواہ اور دیگر بہت سے مسائل میں شناخت اور امتیاز نہ ہونے کی وجہ سے معاشرتی نظام میں ناقابل تلافی نقصان پیدا ہو سکتا ہے، جب کہ اللہ کا ارشاد ہے:

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِکُمۡ وَ اَلۡوَانِکُمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلۡعٰلِمِیۡنَ﴿﴾ (۳۰ روم : ۲۲)

اور آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے علم رکھنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔

نیز ارشاد فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ﴿﴾ (۴۹ حجرات :۱۳)

اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا خوب باخبر ہے۔

اس مؤقف پر دو اور آیتوں سے استدلال کیا جاتا ہے: پہلی آیت ہماری زیر بحث آیت ہے، جس میں شیطان کی زبانی فرمایا: وَ لَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلۡقَ اللّٰہِ ۔ میں انہیں حکم دوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی خلقت میں ضرور رد و بدل کریں گے۔

دوسری آیت:

فَلۡیَنۡظُرِ الۡاِنۡسَانُ مِمَّ خُلِقَ ؕ﴿﴾ خُلِقَ مِنۡ مَّآءٍ دَافِقٍ ﴿﴾ یَّخۡرُجُ مِنۡۢ بَیۡنِ الصُّلۡبِ وَ التَّرَآئِبِ ؕ﴿﴾ ( ۸۶ طارق : ۵ تا ۷)

پس انسان کو دیکھنا چاہیے وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے، وہ اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے (کی ہڈیوں) سے نکلتا ہے۔

اس اعتبار سے کلوننگ اللہ تعالیٰ کے تخلیقی نظام میں مداخلت اور تغییر ہے اور مرد و زن کے اشتراک کے بغیر انسان کی پیدائش اس قانون فطرت سے انحراف ہے۔

دوسرا نظریہ، یہ ہے کہ کلوننگ کا عمل نہ صرف یہ کہ قانون تخلیق میں مداخلت نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے قانون فطرت میں مداخلت ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تخلیق ابداعی ہوتی ہے۔ یعنی عدم سے وجود میں لانا اور خلق ابداعی میں مداخلت ناممکن ہے۔ چنانچہ انسانی تخلیق میں دو باتوں کو اساسی حیثیت حاصل ہے۔ دونوں میں انسان کی مداخلت ناممکن ہے۔ وہ ہے سیل کی تخلیق اور سیل کا ارتقائل عمل۔ کلوننگ میں نہ تو سیل کی تخلیق ہوتی ہے، نہ ہی تقسیم کے ذریعہ سیل کے ارتقائی عمل میں انسان کا کوئی کردار ہے، بلکہ یوں کہناچاہیے کہ سیل کے مرکزی حصے DNA میں موجود تین ارب سالموں میں سے ایک سالمے میں بھی انسان مداخلت نہیں کر سکتا۔ چنانچہ مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں خلق اللہ سے مراد فطرۃ اللہ لیا ہے اور اللہ نے فطرۃ اللہ کودین قیم کہا ہے:

فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ؕ فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ٭ۙ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿﴾ (۳۰ روم آیت ۳۰)

پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں، (یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

حضرت محمد باقرعلیہ السلام سے روایت ہے کہ خلق اللہ سے مراد دین فطرت ہے ( التبیان اسی آیت کے ذیل میں) نیز تفسیر قرطبی میں رسول اللہؐ سے بھی ایک روایت ہے کہ اس سے مراد دین فطرت ہے۔ اس تفسیر کے مطابق خلق اللہ میں رد و بدل سے مراد دین فطرت کے احکام میں رد و بدل ہے۔ یعنی شیطان کے فریب سے لوگ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیتے ہیں۔

دوسری آیت میں فرمایا کہ انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے (کی ہڈیوں) سے نکلتا ہے۔

کلوننگ میں چونکہ مرد و زن کے اشتراک کے بغیر انسان کی پیدائش ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ قانون فطرت سے انحراف ہے۔

اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ آیت کی نظر تخلیق کے عام حالات پر ہے، جس میں مرد و زن کا اشتراک ہے۔ آیت میں اس بات کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے کہ تخلیق کا عمل اسی صورت میں منحصر ہے۔ خدا کے قانون فطرت میں بھی انحصار نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت آدم و حوا اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی تخلیق میں مرد و زن کا اشتراک نہیں ہے۔

نیز آیت کا محل بیان و موردِ نظر یہ ہے کہ اللہ کے لیے قیامت کے دن دوبارہ لوگوں کو زندہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ جس نے انسانوں کو پیٹھ اور سینے سے نکلنے والے پانی سے پیدا کیا ہے، وہ اس کو دوبارہ پیدا کر سکتا ہے۔ لہٰذا محل بیان طریقہ تخلیق نہیں ہے، بلکہ امکان تخلیق ہے۔

البتہ ایک بات قابل توجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عام حالات میں جو تخلیقی طریقہ اختیار کیا ہے وہ مرد و زن کے اشتراک سے ہے۔ اس اشتراک کے بغیر اسے یک طرفہ کر دینا ایک قسم کی تغییر شمار ہو سکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے لیے ایک قسم کا سیل مخصوص کر رکھا ہے جسے جنسی سیل کہتے ہیں۔ کلوننگ میں اس سے ہٹ کر جسمانی سیل سے تخلیق کا کام لیا جاتا ہے جو ایک قسم کی تبدیلی ہے۔

یہ کہنا کہ خود اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کی تخلیق میں یک طرفہ طریقہ تخلیق اختیار کیا ہے، درست نہیں ہے، کیونکہ حضرت عیسیٰ کی تخلیق یک طرفہ نہ تھی بلکہ:

فَنَفَخۡنَا فِیۡہَا مِنۡ رُّوۡحِنَا ۔۔۔۔ (۲۱ انبیاء ۹۱)

ہم نے مریم میں اپنی روح پھونک دی۔

سے گمان ہوتا ہے کہ ایک قدرتی تخم مریم (س) سے جڑ گیا اور عیسیٰ (ع ) کی تخلیق ہو گئی۔ تاہم یہ خدائی عمل ہے، اس کا بشری عمل کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔

دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ بات ہنوز تجربہ طلب ہے کہ کیا کلوننگ سے وجود میں آنے والا انسان انفرادی اور اجتماعی زندگی دوسرے انسانوں کی طرح گزار سکے گا۔

کلوننگ کے بارے میں بہت باتیں ہمارے معاصر انسانوں کے لیے جواب طلب ہیں اور انسانی تولید میں جو قدرتی عمل ہے یعنی جنسی ملاپ، اس کے بغیر انسان پیدا ہونے لگیں تو اس کا کیا حشر ہوگا؟ اس صورت میں خاندان کے تشخص کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس بچے کی شناخت کیا ہو گی۔ کیونکہ بیالوجیکلی (Biologically) اس کے باپ کا تعین ہے نہ ماں کا۔ کیونکہ سیل (Cell)کا مالک یعنی جس کے سیل سے یہ بچہ پیدا ہوا ہے، بیالوجیکلی (Biologically) وہ جڑواں بھائی ہے اور سیل(Cell)کے مالک کے آبا و اجداد جیناتی اعتبار سے اس بچے کے ماں باپ ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا درج ذیل سوالات پیدا ہوں گے:

i۔ اس کا باپ کون ہو گا۔ کیونکہ باپ وہ ہے جس کے نطفے سے پیدا ہوا ہو۔ یہ بچہ کسی انسان کے نطفے سے پیدا نہیں ہوا بلکہ ایک شخص کے جسم کی ایک جز، سیل (Cell) سے پیدا ہوا ہے۔ کسی شخص کو کسی اور شخص کے بدن کی جز سے بنایا جائے، وہ اس کا باپ نہیں کہلائے گا، بلکہ بیالوجیکلی (biologically) وہ اس کا جڑواں ہے۔ خصوصاً اگر یہ سیل (cell) ایک عورت سے لیا جائے تو وہ عورت اس کا باپ یقینا نہ ہو گی۔

بعض فقہاء نے اتفاق کیا ہے کہ سیل (cell)کا مالک اس بچے کا باپ نہیں ہے۔ (آیۃ اللہ السید محمد سعید الحکیم۔ مجلہ النور شمارہ ۱۶۲)

ii۔ اس کی ماں کون ہو گی؟ کیونکہ یہاں ایک نہیں کئی مائیں ہیں یا کوئی ماں نہیں ہے۔ کیونکہ ماں وہ ہے، جس کا تخم جرثومہ پدر کے ساتھ جفت ہو گیا ہو۔ یہاں ماں کے تخم سے کروموزومز (chromosome)نکال لیے گئے ہیں۔ صرف اس تخم کی جھلی سے کام لیا گیا ہے۔

کیا اس کی ماں وہ عورت ہو گی جس کے تخم کی جھلی سے کام لیا گیا ہے؟

یا وہ عورت جس کے رحم میں اس کو پرورش ملی؟

یا وہ عورت جس سے سیل لیا گیا۔ کیونکہ وہ باپ تو نہیں ہو سکتی تو کیا ماں ہو سکے گی؟

یا وہ عورت جس کی گود میں پرورش پائی؟

یا وہ عورت جس نے اس عورت کو جنا، جس سے سیل لیا گیا۔ یعنی نانی؟

iii۔ اس کے نسب کے بارے میں کیا فیصلہ ہو گا۔ کیا سیل (cell)کا مالک اگر سید ہے تو یہ بچہ سید شمار ہو گا؟

فقہاء نے جب سیل (cell)کے مالک کو باپ نہیں تسلیم کیا تو یہ بچہ نسب میں سیل (cell) کے مالک کے تابع نہ ہو گا۔

iv۔ اگر سیل (cell) کا مالک باپ نہیں ہے تو کیا وہ اس سے شادی کر سکے گا؟

اگرچہ سیل (cell) کے مالک کو باپ تسلیم نہیں کیا جاتا، تاہم یہ بچہ اس کے جسم کا حصہ ضرور ہے۔ اس اعتبار سے شادی جائز نہ ہو گی۔

بہرحال کلوننگ سے خاندانی تشخص کا خاتمہ ہو گا۔ کیونکہ ایسے بچوں کی پیدائش کے لیے جنسی ملاپ ضروری نہیں رہتا۔ اس کے نتیجے میں قدرتی انسان کی جگہ صنعتی انسان آنے کے بعد وہ کس قسم کا معاشرہ تشکیل دے گا؟ ابہامات اور سوالات ہیں۔

ایک اور بات بڑے اہتمام کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر اٹھائی جا رہی ہے:

اگر انسانی تخلیق کے قدرتی عمل میں مداخلت ہوئی تو وارثتی جینات میں تصرف شروع ہو جائے گا اور انسان کے جینز (genies) میں موجود خاصیتوں، ذہانت، قد، رنگ وغیرہ کا علم ہو گا تو دولتمند لوگ بہتر ذہانت اور اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک بچے بنوانا شروع کریں گے۔ اس کے نتیجے میں ایک خطرناک ناقابل تصور طبقاتی معاشرہ وجود میں آئے گا۔ کیونکہ ایک طرف ایسے بچے پیدا ہوں گے جو انسانی صلاحیتوں سے مافوق صلاحیتوں کے مالک ہوں گے۔ دوسری طرف ان کے مقابلے میں بے بس بے چارے لوگ ہوں گے۔


آیات 119 - 121