یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قِیۡلَ لَکُمۡ تَفَسَّحُوۡا فِی الۡمَجٰلِسِ فَافۡسَحُوۡا یَفۡسَحِ اللّٰہُ لَکُمۡ ۚ وَ اِذَا قِیۡلَ انۡشُزُوۡا فَانۡشُزُوۡا یَرۡفَعِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو کشادگی پیدا کر دیا کرو، اللہ تمہیں کشادگی دے گا اور جب تم سے کہا جائے: اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو، تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے اور وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا ہے ان کے درجات کو اللہ بلند فرمائے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔

11۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ آداب مجلس سے واقف نہ تھے اور مجلس رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں نئے آنے والوں کو جگہ نہیں دیتے تھے۔ اس طرح مجلس رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں نہ پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگوں کو آداب محفل کا خیال ہوتا تھا کہ بعد میں آنے والوں کو جگہ دیں اور نہ بعد میں آنے والوں میں شائستگی تھی۔ چنانچہ وہ لوگوں کو روندتے ہوئے محفل میں گھس جاتے تھے۔ اس پر آداب محفل پر مشتمل یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر گنجائش ہے تو آنے والوں کے لیے کشادگی پیدا کرو، وگرنہ اٹھ جایا کرو اور محفلوں میں حفظ مراتب کا خیال رکھا کرو۔ چنانچہ ایمان اور علم میں امتیاز رکھنے والوں کو اللہ نے درجہ دیا ہے۔ دوسری تشریح یہ ہو سکتی ہے کہ اللہ ایمان اور علم والوں کو درجہ دیتا ہے۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس زیادہ دیر تک بیٹھنے سے درجات نہیں ملتے۔ اس آیت سے علم اور صحبت میں امتیاز واضح ہو جاتا ہے، درجہ علم سے بلند ہوتا ہے، صرف ہم نشینی سے نہیں۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نَاجَیۡتُمُ الرَّسُوۡلَ فَقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیۡ نَجۡوٰىکُمۡ صَدَقَۃً ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ وَ اَطۡہَرُ ؕ فَاِنۡ لَّمۡ تَجِدُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اے ایمان والو! جب تم رسول سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو، یہ بات تمہارے لیے بہتر اور زیادہ پاکیزہ ہے، ہاں اگر صدقہ دینے کے لیے کچھ نہ پاؤ تو اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔

12۔ بقول قتادہ کچھ لوگ (شاید امیر لوگ) بلا وجہ اور صرف اپنی بڑائی دکھانے کے لیے حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خلوت میں بات کرنا چاہتے تھے۔ اس آیت کے ذریعے پابندی عائد کر دی گئی کہ جو آپ سے خلوت میں بات کرنا چاہتا ہے، وہ پہلے صدقہ دے۔ اس پر یہ ریاکارانہ سلسلہ بند ہو گیا۔ صرف حضرت علی علیہ السلام نے صدقہ دے کر حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مسئلہ پوچھا۔ بعد کی آیت کے ذریعے یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ ابن عمرؓ کہتے ہیں: علی (علیہ السلام) کے تین ایسے فضائل ہیں ان میں سے ایک بھی فضیلت مجھے حاصل ہوتی تو بڑی دولت سے میرے لیے بہتر تھی۔ حضرت فاطمہ (س) کے ساتھ تزویج۔ خیبر کے دن عَلَم دیا جانا اور آیہ نجویٰ۔ (الکشاف 4: 494)

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: قرآن میں ایک آیت ہے جس پر میرے سوا نہ کسی نے عمل کیا اور نہ میرے بعد کوئی کر سکے گا۔ (وہ یہی آیہ نجویٰ ہے۔)

ءَاَشۡفَقۡتُمۡ اَنۡ تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیۡ نَجۡوٰىکُمۡ صَدَقٰتٍ ؕ فَاِذۡ لَمۡ تَفۡعَلُوۡا وَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیۡکُمۡ فَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿٪۱۳﴾

۱۳۔ کیا تم اپنی سرگوشیوں سے پہلے صدقہ دینے سے ڈر گئے ہو؟ اب جب تم نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے تمہیں معاف کر دیا تو تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کیا کرو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب آگاہ ہے۔

13۔ یہ امر استحبابی نہ تھا۔ سیاق کلام سے مفہوم معلوم ہوتا ہے کہ اس امر پر عمل نہ کرنے کی سرزنش ہو رہی ہے۔ ”کیا تم ڈر گئے“ اور ”اللہ نے معاف کر دیا“ قرینہ ہے کہ اس حکم پر عمل نہ کرنا ایک قابل سرزنش کوتاہی تھی۔

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ تَوَلَّوۡا قَوۡمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ ؕ مَا ہُمۡ مِّنۡکُمۡ وَ لَا مِنۡہُمۡ ۙ وَ یَحۡلِفُوۡنَ عَلَی الۡکَذِبِ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو ایسے لوگوں سے دوستی کرتے ہیں جن پر اللہ غضبناک ہوا ہے؟ یہ لوگ نہ تمہارے ہیں اور نہ ان کے اور وہ جان بوجھ کر جھوٹی باتوں پر قسم کھاتے ہیں۔

14۔ مدینے کے یہودیوں کی طرف اشارہ ہے، جن کے ساتھ منافقین کے دوستانہ تعلقات تھے۔

اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمۡ عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ اِنَّہُمۡ سَآءَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ اللہ نے ان کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے، وہ جو کچھ کر رہے ہیں یقینا وہ برا ہے۔

اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّۃً فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَلَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ﴿۱۶﴾

۱۶۔ انہوں نے اپنی قسموں کو سپر بنا رکھا ہے پھر وہ راہ خدا سے روکتے ہیں، پس ان کے لیے ذلت آمیز عذاب ہے۔

16۔ ان لوگوں نے اپنی قسموں سے دو کام لینے کی کوشش کی: پہلا یہ کہ ان قسموں کو ڈھال بنا کر اور اپنے آپ کو ایمان کے تحفظ میں رکھ کر غیر مسلم ہونے کے خطرات سے بچا لیں۔ دوسرا یہ کہ ان کے منفی کردار کو دیکھ کر لوگ اسلام سے متنفر ہو جائیں۔

لَنۡ تُغۡنِیَ عَنۡہُمۡ اَمۡوَالُہُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ شَیۡئًا ؕ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ؕ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ یقینا اللہ (کے عذاب) سے نہ ان کے اموال انہیں بچائیں گے اور نہ ان کی اولاد، یہ جہنم والے ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

یَوۡمَ یَبۡعَثُہُمُ اللّٰہُ جَمِیۡعًا فَیَحۡلِفُوۡنَ لَہٗ کَمَا یَحۡلِفُوۡنَ لَکُمۡ وَ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّہُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ ؕ اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ الۡکٰذِبُوۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ جس دن اللہ ان سب کو اٹھائے گا تو وہ اسی طرح اللہ کے سامنے قسمیں اٹھائیں گے جس طرح تمہارے سامنے قسمیں اٹھاتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ کسی موقف پر ہیں آگاہ رہو! یہ لوگ یقینا جھوٹے ہیں۔

18۔ دنیا میں لوگوں کا جو مزاج ہے، قیامت کے دن اسی مزاج کے ساتھ محشور ہوں گے۔ چنانچہ یہ لوگ دنیا میں مسلمانوں کو باور کرانے کے لیے جھوٹی قسمیں کھایا کرتے تھے۔ قیامت کے دن اللہ کے سامنے بھی قسمیں کھائیں گے۔ اَنَّہُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ ان کی دنیوی عادت گئی نہیں۔ وہ اب بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ کسی دلیل اور مضبوط موقف پر قائم ہیں۔

اِسۡتَحۡوَذَ عَلَیۡہِمُ الشَّیۡطٰنُ فَاَنۡسٰہُمۡ ذِکۡرَ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ حِزۡبُ الشَّیۡطٰنِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ الشَّیۡطٰنِ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ شیطان نے ان پر قابو پا لیا ہے اور انہیں اللہ کا ذکر بھلا دیا ہے، یہ گروہ شیطان ہیں، آگاہ رہو! شیطان کا گروہ ہی یقینا خسارے میں ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحَآدُّوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗۤ اُولٰٓئِکَ فِی الۡاَذَلِّیۡنَ﴿۲۰﴾

۲۰۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرتے ہیں وہ یقینا ذلیل ترین لوگوں میں سے ہیں۔

20۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مقابلے میں جو لوگ آئیں گے، تو یہ بات واضح ہے کہ عزت اللہ، اس کے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مومنین کے لیے ہے، تو ان کے مقابلے میں آنے والے ذلیل ہی ہوں گے۔

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیۡزٌ﴿۲۱﴾

۲۱۔ اللہ نے لکھ دیا ہے: میں اور میرے رسول ہی غالب آکر رہیں گے، یقینا اللہ ہی بڑی طاقت والا، غالب آنے والا ہے۔

21۔ كَتَبَ۔ لکھ دیا ہے۔ یہ لفظ ایک اٹل اور حتمی فیصلے کے لیے استعمال ہوا کرتا ہے۔ یہ حق کا غلبہ ہے، باطل پر دلیل و منطق کا غلبہ بھی ہے اور مادی طور پر بھی غلبہ ہو گا۔ باطل کی وقتی اچھل کود دیکھ کر یہ سوال ذہنوں میں آتا ہے کہ اس وقت روئے زمین میں اللہ اور اللہ کے رسول کا کون سا غلبہ ہے؟ جواب یہ ہے کہ تاریخ انبیاء پر ایک نظر ڈالیں، ابراہیم علیہ السلام و نمرود، موسیٰ و فرعون محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و ابوجہل میں سے کس کو غلبہ حاصل ہے۔ منطق و دلیل کے اعتبار سے اسلام کا دائرہ سمٹ رہا ہے یا بڑھ رہا ہے؟ مادی غلبے کے اعتبار سے ماضی و مستقبل کے سب حالات کو سامنے رکھا جائے تو ماضی میں اسلام کو غلبہ تھا اور تمام ادیان کی پیشگوئی کے مطابق مستقبل میں بھی اللہ و رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہی غلبہ ہو گا۔

لَا تَجِدُ قَوۡمًا یُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ یُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَوۡ کَانُوۡۤا اٰبَآءَہُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَہُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَہُمۡ اَوۡ عَشِیۡرَتَہُمۡ ؕ اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡاِیۡمَانَ وَ اَیَّدَہُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡہُ ؕ وَ یُدۡخِلُہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ اُولٰٓئِکَ حِزۡبُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰہِ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿٪۲۲﴾

۲۲۔ آپ کبھی ایسے افراد نہیں پائیں گے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے (بھی) ہوں لیکن اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے محبت رکھتے ہوں خواہ وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے خاندان والے ہی کیوں نہ ہوں، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان کو ثبت کر دیا ہے اور اس نے اپنی طرف سے ایک روح سے ان کی تائید کی ہے اور وہ انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے راضی ہیں، یہی لوگ اللہ کی جماعت ہیں، آگاہ رہو! اللہ کی جماعت والے ہی یقینا کامیاب ہونے والے ہیں۔

2۔ ایمان باللہ کا ایک لازمہ یہ ہے کہ اللہ کے دشمنوں سے محبت نہیں رکھ سکتے۔ یعنی ایک دل میں دو متضاد محبتیں جمع نہیں ہو سکتیں۔ یہ آیت یا تو ان لوگوں کے حق میں ہے جنہوں نے اپنے ان عزیزوں سے محبت نہیں رکھی جو کفر پر تھے یا ان لوگوں کی سرزنش میں ہے جنہوں نے ایسا نہیں کیا۔ دونوں قسم کے واقعات ملتے ہیں۔