رسولؐ کے ساتھ سرگوشی پر صدقہ دینے کا حکم


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نَاجَیۡتُمُ الرَّسُوۡلَ فَقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیۡ نَجۡوٰىکُمۡ صَدَقَۃً ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ وَ اَطۡہَرُ ؕ فَاِنۡ لَّمۡ تَجِدُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اے ایمان والو! جب تم رسول سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو، یہ بات تمہارے لیے بہتر اور زیادہ پاکیزہ ہے، ہاں اگر صدقہ دینے کے لیے کچھ نہ پاؤ تو اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔

12۔ بقول قتادہ کچھ لوگ (شاید امیر لوگ) بلا وجہ اور صرف اپنی بڑائی دکھانے کے لیے حضور ﷺ سے خلوت میں بات کرنا چاہتے تھے۔ اس آیت کے ذریعے پابندی عائد کر دی گئی کہ جو آپ سے خلوت میں بات کرنا چاہتا ہے، وہ پہلے صدقہ دے۔ اس پر یہ ریاکارانہ سلسلہ بند ہو گیا۔ صرف حضرت علی علیہ السلام نے صدقہ دے کر حضور ﷺ سے مسئلہ پوچھا۔ بعد کی آیت کے ذریعے یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ ابن عمرؓ کہتے ہیں: علی (علیہ السلام) کے تین ایسے فضائل ہیں ان میں سے ایک بھی فضیلت مجھے حاصل ہوتی تو بڑی دولت سے میرے لیے بہتر تھی۔ حضرت فاطمہ (س) کے ساتھ تزویج۔ خیبر کے دن عَلَم دیا جانا اور آیہ نجویٰ۔ (الکشاف 4: 494)

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: قرآن میں ایک آیت ہے جس پر میرے سوا نہ کسی نے عمل کیا اور نہ میرے بعد کوئی کر سکے گا۔ (وہ یہی آیہ نجویٰ ہے۔)