آیت 13
 

ءَاَشۡفَقۡتُمۡ اَنۡ تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیۡ نَجۡوٰىکُمۡ صَدَقٰتٍ ؕ فَاِذۡ لَمۡ تَفۡعَلُوۡا وَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیۡکُمۡ فَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿٪۱۳﴾

۱۳۔ کیا تم اپنی سرگوشیوں سے پہلے صدقہ دینے سے ڈر گئے ہو؟ اب جب تم نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے تمہیں معاف کر دیا تو تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کیا کرو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب آگاہ ہے۔

تشریح کلمات

اَشۡفَقۡتُمۡ:

( ش ف ق ) اشفق خوف کرنے کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ ءَاَشۡفَقۡتُمۡ: کیا تم اپنی سرگوشیوں سے پہلے صدقہ دینے میں فقر و تنگدستی سے ڈر گئے۔ یہ سوچ کر کہ آج کے بعد ہمیشہ سرگوشی کے لیے صدقہ دیتے رہنا پڑے گا۔

۲۔ فَاِذۡ لَمۡ تَفۡعَلُوۡا: یہ دوسری سرزنش ہے کہ جب تم نے حکم خدا کے باوجود ایسا نہ کیا جو ایک قسم کی بے اعتنائی اور قابل سرزنش گناہ ہے۔

۳۔ وَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیۡکُمۡ: اس قابل سرزنش گناہ کو اللہ نے معاف کر دیا اور معافی کی یہ صورت ہوئی کہ آیندہ کے لیے اس حکم کو منسوخ کر دیا۔

اگر صدقہ ترک کر دینا قابل سرزنش گناہ نہ ہوتا تو اس پر عمل کرنا قابل قدر فضیلت نہ ہوتی۔ پھر اللہ نے فرمایا تھا اس صدقے کے دینے میں ذٰلِکَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ وَ اَطۡہَرُ تمہارے لیے بہتر اور پاکیزہ تر ہے۔ اس تاکید کے باوجود صدقہ نہ دینا بے اعتنائی ہے۔ چنانچہ روح المعانی میں لکھا ہے:

و فیہ علی ما قیل اشعار بان اشفاقہم ذنب تجاوز اللّٰہ تعالیٰ عنہ۔

بنابر قولے اس میں اس بات کا اشارہ ہے کہ لوگوں کا یہ ڈر گناہ تھا۔ اللہ نے معاف کر دیا۔

۴۔ فَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ: آئندہ نماز و زکوۃ کی پابندی کے ساتھ کے ساتھ،

۵۔ وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ: اللہ اور رسول کی طرف سے صادر ہونے والے احکام کی اطاعت کرو اور پھر بے اعتنائی نہ کرو۔


آیت 13